ہمارے محترم نوجوان دوست مفتی محمّد قیام الدین ( پیدائش 12/ دسمبر 1996 ) سیتامڑھی بانی و ڈائیریکٹر ”مشن تقویت امت “ نے ”امت کو ایک نئے تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت ہے “ کے عنوان پر دانشوران و أہل علم سے مشورے اور ان کی آراء طلب کی ہیں ۔
امت مسلمہ کو تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ یہ ایسا سوال نہیں ہے کہ اسکا جواب سرسری طور پر ”ہاں“ یا ”نہیں“ میں دے دیا جائے ، بلاشبہ یہ سوال وسیع غور و فکر اور مطالعہ و مباحثے کو چاہتا ہے ، آئیے ! کوشش کرتے ہیں ۔ جان لینا چاہیے کہ موجودہ زمانے میں تنظیمیں بعض اعتبارات سے حکومتوں سے زیادہ فائدے مند فعال اور انسانی مسائل کو حل کرنے والی ہوتی ہیں ، تنظیمیں ہی حکومتوں کو سمت Direction دیتی ہیں ، حکومتوں کے کاموں آسان بناتی ہیں اور سماج کو عصری چیلنجز کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہیں ، تنظیمیں ہی مطلق العنان حکومت کو لگام پہناتی ہیں ، تنظیمیں ہی عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے ۔
تنظیموں کی بے پناہ اہمیت کے باوجود اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا امت مسلمہ میں تنظیمیں موجود ہیں یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ امت مسلمہ میں بڑی بڑی تنظیمیں موجود ہیں ، تو وہ اس حد تک ناکارہ کیسے اور کیوں ہوگئی کہ اب نئے تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ، میرے خیال میں نئے تنظیمی ڈھانچے کو کھڑا کرنے سے زیادہ ضروری ہے کہ ناکارہ تنظیموں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے اسباب و عوامل کو واضح کیا جائے بنظر احتساب تنظیموں کے ناکام طویل سفر پر سیمنار کرائے جائیں ۔ خیال رہے کہ جس طرح بلا ضرورت مسجد بنانا گناہ ہے ، بعینہٖ اسی طرح بلا ضرورت تنظیمیں قائم کرنا بھی گناہ ہے کیونکہ یہ بغاوت ہی کا ایک خوبصورت نام ہے اس لئے تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنے سے پہلے حقیقی ضرورت کو واضح کیا جانا چاہیے ۔
اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو تنظیمیں کامیاب ہیں یا جن علماء و مفکرین کا اثر و رسوخ ہمکو امت مسلمہ پر نظر اتا ہے اس کی کیا وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کے اثرات آج بھی ہم کو محسوس ہوتے ہیں ، جب ہم اس زاویے سے غور کرتے ہیں تو دو چیزیں صاف نظر آتی ہیں ایک ہے افراد سازی کا تسلسل ، دوسری چیز ہے علماء و دانشوران کی پشت پر مضبوط نظریاتی لٹریچر ۔ امام ابو حنیفہ سے لے کر مسلکی تفریق کا لحاظ کیے بغیر 21ویں صدی کے تمام عظیم علماء و دانشوران تک سب کی کامیابی و ناکامی کے پیچھے یہی دو وجہ ہیں ، جن کے پاس مضبوط افراد کا تسلسل تھا اور پشت پر نظریاتی لٹریچر تو وہ کامیاب رہے جو ان میں سے کسی ایک چیز سے بھی محروم رہے تو وہ ناکام رہے ۔ ہمارے زمانے کی تنظیموں میں سے سوائے ”جماعت اسلامی“ کے کوئی ایسی تنظیم نہیں جس کے پاس مضبوط لٹریچر یا افراد سازی کا کوئی مستقل عمل ہو ، یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہم کو بڑے بڑے اہل علم و دانشوران تو نظر آتے ہیں مگر کامیاب تنظیم نہیں ۔ تو کیا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنے سے پہلے افراد سازی کا کوئی نسخہ اور ٹھوس نظریاتی لٹریچر تیار کر لیا گیا ہے ؟
اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان ، ریٹائرڈ اشخاص ، مدارس کے مہتمم حضرات جن کے پاس دولت کی کمی نہیں ہوتی انفرادی سطح پر ملک و ملت کے لیے فائدے مند ثابت کیوں نہیں ہوتے ؟ کیوں یہ لوگ اپنے آس پاس کی گلی کوچوں میں ، مساجد کے علاقے میں متحرک نہیں ہوتے ؟ ان لوگوں کو ملت سماج اور برادری کی اہمیت کیوں سمجھ میں نہیں آتی ؟ کتنا ہی مضبوط تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرلیا جائے جب تک ہر فرد اپنے حصے کی ذمے داری ادا نہیں کرے گا اس وقت تک ملی ترقی کا خواب ”خواب“ ہی رہے گا ، ملی ترقی کے اس اہم فریضہ کے لئے ہر میدان سے متعلق بہت بڑے پیمانے پر افراد تلاش کرنے ہونگے اور ان سے خدمات لینی ہونگی جو کہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔
آزادی کے بعد بہت سے نوجوان پوری ہمت حوصلے اور جذبۂ اخلاص کے ساتھ اٹھے انہوں نے ہر طرح کی قربانی دی مگر قیادت اور قوم کی گردنوں پر زبردستی قابض و مسلط طبقے نے ان نوجوانوں کو کوئی حمایت نہیں دی بلکہ کئی واقعات ایسے ہیں جن میں اس طبقے نے کمال عیاری سے غنڈہ گردی سے کام لیا اور پوری قوم کو تسبیح ، اوراد و وظائف اور خانقاہ وغیرہ میں الجھا دیا ۔ جو لوگ اخلاص کے ساتھ ملی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں وہ اس طبقے سے بہت پریشان رہتے ہیں اور ان کا ظلم بھی سہتے ہیں ۔ نئے تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت سے انکار نہیں مگر اس عیار طبقہ کی شرارت سے بچ کر رہیے ، کوئی بھی تنظیم کھڑی ہوتی ہے تو اس عیار طبقہ کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی نظر آتی ہے اور پھر یہ طبقہ اپنے وجود کی بقا کے لیے کمینگی کی ہر سطح کو پھلانگ جاتا ہے ، یہ طبقہ نہ خود کچھ کرتا ہے اور نا ہی دوسروں کو کرنے دیتا ہے بلکہ دوسروں کو بزورِ طاقت بہت چالاکی سے روکتا ہے ۔
بھارت کے پس منظر میں تنظیم کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ رفاہی کام کرے گی آٹا کمبل اور مفت دوائیوں کے کیمپ لگائے گی ، فسادات اور سیلاب وغیرہ اسمانی آفات میں مدد کرے گی ، اس قسم کے تمام کام حکومت کی عملداری میں بھی آتے ہیں اور موجودہ تنظیمیں بھی یہ کام کرتی رہتی ہیں ۔ بھارت کے پس منظر میں تنظیم کے مقاصد میرے خیال میں مندرجہ ذیل اُمور ہونے چاہیے
1۔ اوقاف کی جائیدادوں کی منظم حفاظت اور ان سے ہونے والی انکم کو ملت کے لیے استعمال کرنا ۔ یہ ایک مقصد ہی اس قدر بھاری بھرکم ہے اور ملت کے لیے مفید ہے کہ اگر ایمانداری سے اس پر عمل کرلیا جائے تو مسلمانوں کے دسیوں مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔
2۔ بھارت کی تمام مساجد کو اول مرحلے میں ضلع وار دوسرے مرحلے میں صوبے وار اور پھر تیسرے مرحلے میں ایک قومی وفاق National federation کے تحت منظم کرکے مضبوط ”ملی مشینری“ تیار کی جاسکتی ہے جس سے ہمارے سینکڑوں مسائل نکاح ، طلاق ، دار القضاء ، بیت المال ، تعلیمی بیداری ، اصلاح معاشرہ ، ہر جمعے کو ایک ملی پیغام ، وغیرہ حل ہوسکتے ہیں۔
تحریر: توصیف القاسمی
(مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور
موبائل نمبر 8860931450