کتنا مجبور ہے انسان، خُدا خیر کرے
بڑا مسرور ہے شیطان، خُدا خیر کرے
خُود کی حالت کا اُسے دوستو اندازہ نہیں
مُجھ پہ ہنستا ہے وہ نادان، خُدا خیر کرے
بات حق کی جو زباں سے مری نکلی جانم
مُجھ سے سب ہوگئےانجان،خُدا خیر کرے
پیار میں جس کے تڑپتا ہوں میں دن رات بہت
باپ ہے اُس کا پہلوان، خُدا خیر کرے
کل جو کھایا تھا مٹن اُس نے ہرن کا لوگو
آج مُشکل میں ہے وہ خان، خُدا خیر کرے
روزاک آتی ہے ارتھی مری بستی میں میاں
روبرو گھر کے ہے شمشان، خُدا خیر کرے
سیر و تفریح میں دُنیا کی ہے مصروف بہت
چھوڑ کے بیوی کو پردھان، خُدا خیر کرے
متحد ہو گئے اغیار زمانے بھر میں
منتشر پر ہیں مُسلمان، خُدا خیر کرے
ٹوٹی پُھوٹی سی مری شاعری میں دم بھی نہیں
میں نہیں جانتا اوزان، خُدا خیر کرے
سچ کا اظہار ہے دُشوار بہت آج یہاں
جُھوٹ اب کہنا ہے آسان،خُدا خیر کرے
باپ جو آ کے اُسے لے گیا محفل سے سحر
اُس میں اٹکی ہے مری جان، خُدا خیر کرے
فرید سحرؔ