آج بھی سیاسی پہچان نہیں!!

بھارت میں 1989 سے پہلے چاہے جیسے بھی حالات رہے ہوں لیکن 1989 کے بعد سے تبدیلی آئی ہے سیاسی ماحول تبدیل ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے چاہے ہندو ہوں یا مسلمان دونوں میں ایک مخصوص طبقہ تھا جو سیاست کی ملائی کھارہا تھا اور اور اقتدار کا مذا چکھ رہا تھا وہ زمانہ ایسا تھا کہ کانگریس کا بول بالا تھا اور کانگریس چھوٹے چھوٹے سماج کو گھاس نہیں ڈالتی تھی ہندوؤں میں ذات برادری تھی اور آج بھی ہے مسلمانوں میں بھی ذات برادری تھی اور آج بھی ہے لیکن سیاسی میدان میں ہندو اور مسلمان میں زمین و آسمان کا فرق ہے ہندو کسی پارٹی کو ووٹ دیتا ہے تو بحیثیت ہندو نہیں بلکہ ذات برادری اور سماج کی حیثیت سے ووٹ دیتا ہے اور مسلمان ووٹ دیتا ہے تو سماج کی حیثیت سے نہیں ، ذات برادری کی حیثیت سے نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان ووٹ دیتا ہے اسی لئے اس کے دکھ درد میں نہ تو کوئی سیاسی پارٹی شریک ہوتی ہے اور نہ ہی کسی پارٹی کا لیڈر شریک ہوتا ہے جس دن سے مسلمان ذات برادری و سماج کی حیثیت سے ووٹ دینے لگے گا اسی دن سے مسلمان لیڈر پیدا ہونے لگیں گے چاہے کسی بھی ذات برادری کا ہو رہے گا تو مسلمان ہی جس طرح اوم پرکاش راجبھر اور چراغ پاسوان اور اکھلیش یادو کا سماج آخر ہے تو ہندو ہی مگر مندر میں اور مذہبی تقریبات و رسومات میں سیاسی میدان میں نہیں،، آج اوپی راجبھر ، نتیش کمار ، جیتن رام مانجھی ، چراغ پاسوان یہ سب این ڈی اے کے ساتھ ہیں اور سب کو حصہ داری ملی ہوئی ہے اس کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنی سماجی و برادری کی سیاسی شناخت کو برقرار رکھا ہوا ہے تو پھر مسلمان سیاسی میدان میں اپنی برادری اور سماج کی حیثیت کیوں بھول جاتا ہے ،، ہندو بھائیوں کو یہ بات معلوم ہے کہ آئین نے مذاہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماج کی بنیاد پر سہولتیں دی ہیں اس لئے وہ مذہبی تقریبات میں ہندو ہونے کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی رسومات کی ادائیگی کا اہتمام و انعقاد کرتے ہیں لیکن رشتہ داری قائم کرتے وقت اور ووٹ دیتے وقت اپنی برادری دیکھتے ہیں اور سماج دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ جب رشتہ داری قائم کرنا ہوتی ہے تو برادری دیکھتے ہیں اور ووٹ دینا ہوتا ہے تو سماج و برادری کی پہچان قائم کرنے سے منہ موڑلیتے ہیں اور بحیثیت مسلمان ووٹ دیتے ہیں اس کے بعد بھی تبصرہ کرتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کا نام لے کر یادو، پاسی، چوہان، کوشواہا ، کرمی، پرجاپتی، راجبھر ، نشاد یعنی بیک ورڈ فارورڈ ووٹوں سے امیدواروں کی ہار جیت کا پیمانہ متعین کرتے ہیں ،، جب ایک طرف ہار جیت کا پیمانہ اس طرح لگاتے ہیں تو دوسری طرف انصاری ، منصوری، قریشی، دفالی وغیرہ وغیرہ برادری کی بنیاد پر ہار جیت کا اندازہ لگانا کیوں بھول جاتے ہیں آخر یہ دوہرا معیار کیوں ؟ اور رشتہ داری قائم کرتے وقت ذات برادری پر اتنی توجہ کیوں ؟ جبکہ بعض علماء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جو شخص کلمہ گو ہوکر برادری کی بنیاد بیٹا بیٹی کی شادی کرتا ہے وہ پورے طور پر اسلام میں داخل ہی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی ذات برادری کو ترجیح دی جاتی ہے –

1989 سے پہلے ہندو بھائیوں کا حال بھی تقریباً ایسا ہی تھا جس کے نتیجے میں 85 فیصد والا طبقہ صرف زندہ باد مردہ باد کا نعرہ لگاتاتھا ، دری بچھاتا تھا بھوکا پیاسا رہ کر کانگریس کے پیچھے پیچھے بھاگا کرتا تھا اور کانگریس کی ساری مہربانی ہمدردی 15 فیصد والوں کے ساتھ تھی اور وہ 15 فیصد والا طبقہ حکومت کرتا تھا اور 85 فیصد والے طبقے سے اکا دکا پارلیمنٹ اور اسمبلی میں پہنچ بھی جاتے تھے تو ان کی کوئی قدر نہیں ہوتی تھی عاجز آکر آنجہانی کانشی رام نے نعرہ بلند کردیا کہ ووٹ ہمارا اور راج تمہارا نہیں چلے گا نہیں چلے گا زبردست تحریک چلائی اور سب سے پہلے انہوں نے اپنے سماج کو بیدار کرنا شروع کیا کانشی رام کی محنت ان کے جوش و خروش کا ریزلٹ 1989 کے الیکشن میں ہی سامنے آگیا اور 1989 میں ہی وی پی سنگھ وزیر اعظم ہوئے اور انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کردیں اس کے بعد کانشی رام کی سیاسی بیداری مہم کو زبردست تقویت حاصل ہوگئی اور ہندو پسماندہ برادریوں کے اندر اتنا سیاسی شعور آگیا اور بیداری آگئی کہ 1989 کے بعد سے اب تک بہار میں کوئی فارورڈ برادری کا وزیراعلی نہیں ہوا ہے یہ سماج کی بنیاد پر سیاسی بیداری و شعور کا نتیجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک سیٹ جیت کر بھی جیتن رام مانجھی حصہ داری کے لئے قطار میں کھڑے تھے اور حصہ داری ملی آج وہ مرکزی کابینہ میں منسٹر ہیں اور اسی پارلیمنٹ میں پورے ملک سے ایک بھی بنکر جیت کر نہیں پہنچ سکا اور زبانی طور پر تو ہماری سیاست کا یہ حال ہے کہ چائے خانہ آباد ہے ہماری سیاست سے ، ڈھابہ آباد ہے ہماری سیاست سے، چھوٹی بڑی بہت سی محفل آباد ہے ہماری سیاست سے ،یہاں تک کہ قبرستان پہنچ کر جنازہ گاہ میں بھی ہم سیاست کی بات کرتے ہیں اور مٹی دیتے ہوئے بھی خاموش نہیں ہوتے مگر پھر بھی ہماری سیاسی پہچان زیرو ہے صفر ہے اور جمہوری نظام میں اتنے بڑے سماج کا یہ حال ہونا سیاسی بدنصیبی ہے اور بے حسی ہے –

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اور مسلمان دونوں کا حال یہی ہے کہ دونوں گول مول والی زبان کا استعمال کرتے ہیں ایک طرف یادو، پاسی، کوشواہا ، چوہان ، نشاد کی بات کریں گے تو دوسری طرف انصاری ، منصوری، قریشی کی بات نہ کرکے سیدھے سیدھے مسلمان کی بات کریں گے ایک برادری کے ووٹ،، و تعداد کا ذکر تو دوسری طرف ایک مذہب کے ماننے والوں کا ذکر ،، اس پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو دھوکا دے رہی ہیں اور مسلمان خود مسلمان کو دھوکا دے رہا ہے ،، راقم الحروف مسلم قیادت کا مخالف نہیں ہے مگر ہاں مسلم قیادت سماجی بنیاد پر ہونی چاہئے مسلمانوں میں جو برادریاں ہیں ان برادریوں کی پہچان و حیثیت کی بنیاد پر ہونا چاہئے ،،رہے گا تو وہ مسلمان،، مگر جیسے لوگ کہتے ہیں کہ اکھلیش،، یادو کے نیتا ہیں ، اوپی راجبھر ،، راجبھروں کے نیتا ہیں ، مایاوتی دلت سماج کی نیتا ہیں ویسے ادھر بھی ہونا چاہئے کہ یہ قریشی ، منصوری، انصاری ، کے نیتا ہیں نہ کہ کوئی یہ کہے کہ یہ مسلمانوں کے نیتا ہیں ،، اس لئے واضح موقف اختیارکیا جائے اور سماج کی بنیاد سیاسی بیداری مہم چلائی جائے پلیٹ فارم مرتب کیا جائے مسلمانوں میں جتنی برداریاں ہیں ان کی آبادی کے اعتبار سے نمائندگی دی جائے ورنہ معاملہ اس کے برعکس ہوگا تو فرقہ پرستی کا لیبل لگے گا،، شائد اسی وجہ سے مسلمانوں کا بھی 15 فیصد والا طبقہ مسلمانوں کے 85 فیصد والے طبقے کو سیاسی طور پر بیدار ہونا نہیں دیکھنا چاہتا اسی لئے ایک طرف برادری تو دوسری طرف مسلمان مسلمان کی رٹ لگائے رہتا ہے اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ 85 فیصد والا مسلمان طبقہ سیاسی طور پر بیدار ہوگیا تو کہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ ، جمیعۃ علماء ہند ، علماء مشائخ بورڈ جیسی تنظیموں پر بھی سوال نہ اٹھانے لگے کہ اب تک جمیعۃ علماء ہند کے قومی صدر پسماندہ کتنے ہوئے؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قومی صدر پسماندہ کتنے ہوئے؟ علماء مشائخ بورڈ کے قومی صدر پسماندہ کتنے ہوئے؟ اگر اب تک نہیں ہوئے یا نہیں بنائے گئے تو آخر کیوں؟ جبکہ آج تو بڑے بڑے عالم ، بڑے سے بڑے خطیب و مقرر ، بڑے بڑے مدارس پسماندہ مسلمانوں میں ہیں جب یہ سوال اٹھنے لگے گا تو جواب دینا مشکل ہو جائے گا کیونکہ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہوئے تنظیم بناکر جس طرح ان تنظیموں کے ذمہ دار،، بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہیں وہ جمہوریت کے خلاف ہے ،، کیونکہ جمہوریت کا اعلان ہے کہ سب کو برابری کا حق دیا جائے،ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کیا جائے اور جس کی جتنی آبادی اتنی اس کی حصہ داری کو ہر ادارے اور ہر شعبے میں یقینی بنایا جائے-

تحریر: جاوید اختر بھارتی 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے