مطالعہ میں استیعاب اور پیش کش میں انتخاب ضروری

ازقلم: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

تعلیمی اداروں میں آپ نے بارہا دیکھا ہوگا کہ گھنٹی ختم ہوگئی، مگر استاذ کا درس ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، دوسرا استاذ جس کی اگلی گھنٹی ہے، باہر ٹہل رہا ہوتا ہے کہ پہلا والا نکلے تو یہ درس دینے کے لیے کلاس میں داخل ہوں، لیکن صاحب ہیں کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے اور انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ دوسری کتاب جو اگلی گھنٹی میں پڑھائی جانی ہے، اس کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ اس طرح طلبہ کا بڑا نقصان ہوتا ہے، اور باہر انتظار کرنے والے کی صفت الگ ہوتی ہے۔

 کچھ یہی صورت حال ہمارے مقررین کی ہے، جو وقت انہیں دیا گیا، اس پر ان کی بات ختم ہونے کو نہیں آتی، گھڑی سانے رکھ دیجیے، گھنٹی بجائیے، اٹھ کر کھڑے ہو جائیے، پرچی بڑھائیے، ان پر کسی چیز کا کوئی کوئی اثر نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنی ساری باتیں اگل کر مجمع کو متاثر نہ کر لیں اور انہیں اس کا یقین نہ ہوجائے، ان کی بات ختم ہی نہیں ہوسکتی، لطف کی بات یہ ہے کہ اگر وہ خود ناظم جلسہ ہیں تو مقرر کی تقریر ختم نہ ہونے پر بلبلاتے رہیں گے، لیکن اگر خود مقرر ہیں تو اوقات کی پابندی کا انہیں کوئی خیال نہیں رہتا۔جو لوگ پارلیامنٹ میں بحث کرتے ہیں، ان کی تقریر بھی ختم ہونے کو نہیں آتی اسپیکر گھنٹی پر گھنٹی بجاتا رہتا ہے، لیکن بولنے والا نن اسٹاپ بولتا چلا جاتا ہے، تشار گاندھی نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ سب سے مشکل کام اناؤنسر کے لیے کسی ہندوستانی مقرر کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ اپنی بات وقت پر ختم کر دے۔

 ایسا ہی کچھ معامہ ناظم جلسہ یا اناؤنسر کا ہوتا ہے، وہ مقرر کی تقریر سے پہلے تعارف کرانے اور بعد میں تقریر پر تبصرہ کرنے میں اتنا وقت بر باد کر تے ہیں کہ الامان والحفیظ، پورے جلسہ کے اوقات کا تجزیہ کریں تو کم از کم ایک چوتھائی وقت یہ اناؤنسر صاحب لے اڑتے ہیں اور اسے وہ اپنا کمال فن سمجھتے ہیں، آدھا وقت نعت خواں کے حصہ میں آتا ہے، او رمقرر وقت کی کمی کا شکوہ کرتا رہ جاتا ہے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ ایسے اناؤنسر کے بارے میں فریا کرتے تھے کہ بارش دس منٹ ہوتی ہے اور چھت آدھے گھنٹے ٹپکتی ہے۔

سمینار،سمپوزیم میں جن لوگوں کی شرکت ہوا کرتی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقالہ نگاروں کی کثرت اورقت پر آغاز نہ ہونے کی وجہ سے ہر سمینار کو قلت وقت کا سامان رہتاہے، بڑی محنت سے مقالہ نگار حضرات، مقالہ کے نام پر پوری کتاب لکھ کر لے آتے ہیں، اور خواہش ہوتی ہے کہ پوری سنا دیں، ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہے، اس لیے ان کو کبیدگی ہوتی ہے، اس صورت حال کی وجہ سے بعض اکیڈمیوں اور سمینار کے منتظمین کی جانب سے ہدایت آنے لگی ہے کہ مقالہ اتنے صفحات سے زائد کا نہ ہواور آخر میں مقالہ کا خلاصہ ضرور درج کیا جائے، پہلے لوگ مختصر لکھتے تھے تو ہدایت ہوتی تھی کہ مقالہ اتنے الفاظ سے کم کا نہ ہو، اب یہ روش بدل گئی ہے، اب مختصر لکھنے کو کہا جاتا ہے، تو لوگ طویل لکھ کرلے آتے ہیں، اور وقت مقررہ پر ختم کرنے کی ساری گذارشات بالائے طاق رکھ دی جاتی ہیں، مجمع چاہے بور ہو رہا ہو، لیکن پورا مقالہ سنا کر ہی دم لیں گے،عموما وقت تین منٹ کا ہوتاہے، اس لیے خواندگی پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا، ایسے میں شکایتیں بھی بہت آتی ہیں اور حکایتیں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔

طلبہ کو امتحان ہال میں بھی یہی شکوہ رہتا ہے کہ سوالات کے اعتبار سے جوابات لکھنے کا وقت کم پڑ جاتا ہے، بعض جوابات طویل لکھنے کے چکر میں باقی سوالات کے جوابات لکھنے سے رہ جاتے ہیں، اس کا جو اثر نتائج امتحان پر پڑتا ہے، اس سے سبھی واقف ہیں۔

اس صورت حال کو بدلنے اور ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ موضوع پر مطالعہ مالہ وما علیہ کا حاشیہ، بین السطور اور شروحات کی مدد سے کر لیں، اور اس انہماک سے کریں کہ آپ کہہ سکیں کہ اس موضوع پر آ پ کا مطالعہ وسیع ہے اور آپ نے حتی الامکان استیعاب کر لیا ہے اور موضوع کا احاطہ کرنے کی صلاحیت تحریری اور تقریری انداز میں آپ کے اندر پیدا ہو گئی ہے، لیکن اگر آپ نے اپنا پورا مطالعہ تقریر میں، تحریر میں، درس میں، امتحان گاہ میں نقل اور  بیان کرنا شروع کر دیا تو آپ اپنی بات وقت پر ختم ہی نہیں کر سکتے، اسی لیے ہمارے بعض اساتذہ کہا کرتے تھے کہ کسی بھی موقع سے ”مطالعہ کی قئے“ نہیں کرنی چاہیے، اس سے نہ مقرر کا بھلا ہوگا، نہ مدرس کا، نہ طلبہ فائدہ اٹھاپائیں گے اور نہ جلسہ وسمینار کے سامعین کو فائدہ پہونچے گا۔

اس لئے اپنے مطالعہ کو پیش کرنے کے لیے ہمیشہ انتخاب سے کام لینا چاہیے، معاملہ درس کا ہو یا تقریر کا، سمینار، سمپوزیم میں جانا ہو یا امتحان گاہ میں، ضروری ہے کہ آپ کو جو کچھ کہنا ہے اس کا انتخاب کر لیں، یہ انتخاب اکابر کے یہاں زیادہ تر ذہنی ہوتا ہے، لیکن اب ہمارا حافظہ اس قدر قوی نہیں رہا کہ ذہنی انتخاب اور ترتیب بولنے، لکھنے سنانے وقت بھی محفوظ رہے، اس لیے انتخاب کے لیے اب لوگ کا غذ کا استعمال کرتے ہیں، پوائنٹ اور ذیلی عنوانات لکھ رکھتے ہیں، گفتگو کے وقت وہ پرچی سامنے رہتی ہے اور گفتگو کم وقت میں موضوع کے مطابق مرتب ہوجاتی ہے، مقرر کے لیے ”ڈائیورسن“ لینے کا موقع نہیں ہوتا، اور بہت سارا وقت بچ جاتا ہے،موضوع کی پابندی کے ساتھ دس منٹ بول لینا بھی کمال کی بات ہے، اب ہم لوگ موضوع پر بات شروع کرتے ہیں، موضوع سے ہٹ کر آدھا گھنٹہ دوسرے موضوعات اور لطائف کی کیاریوں میں چہل قدمی کرتے ہیں، اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ ”اچھا تو میں یہ عرض کر رہا تھا“ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی اگر موضوع، وقت کی پابندی اور کہی جانے والی باتوں کا انتخاب پہلے کر لیا جائے۔تدریس میں ایک چیز تدریس کی منصوبہ بندی (لیسن پلان) ہوا کرتا ہے، اس منصوبہ بندی کے ذریعہ درس کو زیادہ مفید، مؤثر اور کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔

 اسی طرح سمیناروں میں پڑھے جانے والے مقالہ کے ضروری حصے کی تعیین کر لیں کہ تین منٹ میں یہ سب سنا دینا ہے توقلت وقت کی شکایت نہیں ہوگی، گو یہ کام آسان نہیں ہے، مضمون اور مقالہ نگارکا ہر جملہ اس کے بچے کی طرح ہوتا ہے اور بچوں کی تفریق کر لینا اس کے لیے پریشان کن ہوتا ہے، کون سا پیراگراف پڑھیں اور کون سا چھوڑ دیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے،مگر وقت کی نزاکت کے پیش نظر ایسا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

تقریر، مقالے، مباحث کو طویل کرنے میں تحت الشعور کہیں یہ بات بھی چھُپی رہتی ہے کہ لوگ مجھے بڑا جان کار، مقرر اور میرے علم کی گہرائی اور گیرائی کے قائل ہوجائیں، اس احساس کی وجہ سے انداز پیش کش میں بھی بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے، سامعین کے حصے میں لطف اندوزی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، اناؤنسر حضرات بھی اس حقیقت کو شاید سمجھنے لگے ہیں، اس لیے وہ بلاتے وقت مستفیدیا مستفیض ہونے کا ذکر نہیں کرتے ”محظوظ فرمائیں“ کہہ کر بلاتے ہیں، یعنی علم وحکمت، وعظ وتقریر کی مجلس نہ ہوئی، قوالی اور مشاعروں کی مجلس ہو گئی، جس کا انعقادہی حظ نفس اور لطف اندوزی کے لیے ہوا کرتا ہے۔

 حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کسی قلم کار کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ مختصر کیوں نہیں لکھتے تو انہوں نے فرمایا کہ مختصر لکھنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ مختصر لکھنے کے لیے نہ صرف مطالعہ وسیع ہونا چاہیے، بلکہ اسلوب، تعبیرات، جملوں کا انتخاب بھی خاص اہمیت رکھتا ہے، یہی حال تقریر کا بھی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات کا مطالعہ کیجئے گا تو پائیے گا کہ سب سے طویل تقریر حجۃ الوداع کی جو مختلف روایتوں کی روشنی میں جوڑ کر تیار کی گئی ہے وہ بخاری شریف کے آدھے صفحہ میں سما جاتی ہے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ خیر الکلام قل و دل، اچھی بات مختصر اور مدلل ہوتی ہے۔

 ہم نے اپنے درس کے زمانہ میں مشاہدہ کیا کہ تلخیص شروع کراتے وقت ”ال“ کی باتیں قسمیں استاذ نے بتائیں، سب کی مثالیں بھی سامنے آئیں، استاذ کی علمی عظمت کے بھی ہم قائل ہوئے،لیکن وہ تفصیل اس وقت بھی سر کے اوپر سے گذر گئی تھی اور آج بھی ذہن کے نہاں خانے میں اس کا کوئی حصہ محفوظ نہیں ہے۔

 اس لیے ساری بات یہیں پر آخر ختم ہو تی ہے کہ مطالعہ میں استیعاب کی کوشش کرنی چاہیے اور پیش کش میں انتخاب پر عمل کرنا چاہیے، اس سے وقت بھی بچے گا اور فائدہ بھی عام وتام ہوگا۔ ان ارید الا الاصلاح مااستطعت وما توفیقی الا باللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے