وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں نے اپنی بیداری سے ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہے۔ مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

پٹنہ
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، اس میں آئین کو بالادستی حاصل ہے۔ آئین کی پابندی ہر شہری پر یہاں تک کہ یہاں کی حکومتوں پر بھی لازم ہے ،کوئی اس کے خلاف نہیں کر سکتا ہے ،اگر کوئی خلاف کرے تو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے آواز بلند کرنے کا حق ہے، ساتھ ہی قانونی چارہ جوئی کا بھی حق ہے۔
    ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، ملک کےآئین میں اقلیتوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق کا تفصیل سے ذکر ہے ۔آئین کے بنیادیحقوق کے دفعات اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ملک کا آئین آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مذہبی آزادی دیتا ہے، اپنی پسند کی تعلیم اور اس کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کو چلانے کا حق دیتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حقوق ہیں جو اقلیتوں کو دیئے گئے ہیں۔

موجودہ وقت میں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے ساتھ بھید بھاؤ کا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ مرکزی حکومت اور بعض ریاستی حکومت کی جانب سے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں، جو ملک کے آئین اور مسلم اقلیت کے مذہبی حقوق سے متصادم ہیں ،  ان ہی میں سے ایک قانون وقف ترمیمی بل بھی  ہے، جو وقف ایکٹ۱۹۹۵ء میں ترمیم کر کے مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ میں نے مجوزہ وقت ترمیمی بل۲۰۲۴ء کا مطالعہ کیا،  وقت ترمیمی بل۲۰۲۴ء کے بہت سے دفعات  مسلم اقلیتوں کو آئین میں دیئے گئے حقوق کے خلاف اور مسلم پرسنل لا  سے متصادم ہیں ، یہ بل  بہت سی خامیوں کا مجموعہ ہے، ان خامیوں میں سے چند حسب ذیل ہیں:
(۱) یہ وقف ترمیمی بل بغیر غور و فکر کے عجلت  میں بنایا گیا اور پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا۔
) اوقاف زیادہ تر مسلمانوں کے ہیں ،  اس کا معاملہ مسلمانوں سے ہے ،اس لئے سابق وقف ایکٹ میں ترمیم سے پہلے مسلم سماج کی ملی ، سماجی اور مذہبی تنظیموں سے اور اہم شخصیات سے مشورہ کی ضرورت تھی، مگر ایسا نہیں کیا گیا اور بغیر کسی مشورہ کے پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کر دیا گیا، جس کی وجہ سے وقف ترمیمی بل خامیوں کا مجموعہ بن گیا۔
(۳) وقت ترمیمی بل میں یہ شامل کر دیا گیا کہ کوئی شخص جو پچھلے پانچ سال سے اسلام پر پابند رہا ہو،  وہی اپنی جائیداد وقف کر سکتا ہے ۔حالانکہ اسلامی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اپنی جائیداد وقف کر سکتا ہے پانچ سال کی کوئی قید نہیں ہے۔
(۴)  ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومت طے کرے گی کہ وقف  سے ہونے والی رقم کہاں خرچ ہوگی حالانکہ اسلامی قانون کے مطابق وقف کی امدنی صرف اسی مد میں خرچ کی جا سکتی ہے جسے وقف کرنے والے واقف  نے طے کیا ہو۔
(۵) وقف ترمیمی بل میں یہ بھی شامل ہے کہ وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کے ممبران غیر مسلم بھی ہو سکتے ہیں۔
(۶) ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ ضلع مجسٹریٹ فیصلہ کرے گا کہ کون جائیداد وقف ہے اور کون وقف نہیں؟  نیز اس کا فیصلہ آخری ہوگا۔
(۷) ترمیمات میں ریاستی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جسے چاہے وقف بورڈ کا ممبر بنائے ،یہ ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہی ہو۔
(۸) ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ واقف کے ذریعہ کسی کو زبانی طور پر متولی متعین کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔
یہ تو چند خامیاں ہیں ویسے تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ وقف ترمیمی بل۲۰۲۴ء  بہت سی خامیوں کا مجموعہ ہے ، تفصیلی جائزہ  پر مشتمل کتابچے ملی تنظیموں کی جانب سے شائع کر دیئے گئے ہیں ۔

وقف ترمیمی بل۲۰۲۴ء  کے بہت سے دفعات  ملک کے آئین اور مسلم پرسنل لا کے متصادم ہیں، اس لیے جب یہ بل مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن پارٹیوں نے سخت مخالفت کی ،  جس کے نتیجہ میں مجوزہ وقت ترمیمی بل۲۰۲۴ء  پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہوسکا ، تو اس مجوزہ بل کو جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی یعنی جے پی سی میں بھیج دیا گیا ۔مرکزی حکومت کو یہ خوش فہمی تھی کہ جے پی سی میں افہام و تفہیم کے ذریعہ اس بل کی  موافقت میں رائے بنا لی جائے گی، مگر جے پی سی میں موافقت کے لیے راہ ہموار نہیں ہوئی، اس درمیان جے پی سی کے چیئرمین نے عام لوگوں سے بھی  رائے طلب کی ، تو اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں  ملک کی تمام اہم ملی تنظیموں نے اس بل کو واپس کرانے کے لیے جد و جہد شروع کی ، مسلمانوں  میں بیداری پیدا کی ، چنانچہ مسلم سماج کے لوگوں نے بل کو واپس لینے کے لئے کئی کروڑ مشورے بھیج دیئے ، جس سے یہ حقیقت سامنے آگئی کہ مسلم سماج کے لوگ اور ملک کے سیکولر عوام زندہ ہیں ، ملک کے آئین کے تحفظ کے لئے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قسم کی جد و جہد  کے لیے تیار ہیں۔
      موجودہ وقت میں تقریباً تمام ملی تنظیمیں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ مجوزہ وقت ترمیمی بل۲۰۲۴ء ملک کے آئین اور مسلم پرسنل لا کے خلاف ہے۔ اس کے نافذ ہونے سے مساجد ، مدارس ، قبرستان اور خانقاہ  وغیرہ خطرے میں پڑ جائیں گے، اس لئے یہ بل منظور نہیں ہے، حکومت اس بل کو واپس لے۔
   مرکزی حکومت اس خوش فہمی میں تھی  کہ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو آپس میں الجھا کر اور اپوزیشن پارٹیوں کو توڑ کر مجوزہ وقف ترمیمی بل۲۰۲۴ء کو پاس کرا لیں گے ، مگر مسلمان ، ملک کے سیکولر عوام اور اپوزیشن کے عمل سے حکومت کا داؤ الٹا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں نے اپنی بیداری سے ثابت کر دیا کہ ابھی وہ زندہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مزید حوصلہ عطا فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے