تحریر:معین الدین رضوی شرواستی
کرونا وائرس یہ وہ لفظ ہے کہ آج اگر اس کا نام کسی کے سامنے لے لیا جائے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں خدا نخواستہ اگر کسی کو یہ بیماری لاحق ہو جائے تو انسان کو دنیا کی دلکش ودلفریب رنگینیاں کم قبر کی گھٹا ٹوپ تاریکیاں زیادہ نظر آتی ہیں لوگ.،،فرومن المجزوم فرارك من الأسد،، والی حدیث پر کچھ زیادہ ہی عمل پیرا نظر آتے ہیں
ایشیا سے لیکر یورپ تک جتنے بھی ممالک اس وبا کا شکار ہیں وہاں کے باشندوں کے لیے خود ان کی سرزمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود سمٹتی ہوئ نظر آرہی ہے زندگی جیسے تھم سی گئ ہو انسان کو انسان سے ڈر لگنے لگا ہے سنسان سڑکیں جن پر دعوت نظارہ دینے والی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار ہوتی تھی آج وہاں سنسناتی ہواؤں کا بسیرا ہے، فضا جو کبھی طیاروں کی گزر گاہ ہوا کرتی تھی آج صرف پرندوں کی پرواز پر قناعت پذیر ہے تھری اور فائیو سٹار ہوٹلیں جو کبھی انسانوں سے بھری ہوتی تھیں آج وہ تنہائیوں کا اڈہ بن کر رہ گئی ہیں اپنی عسکری اور نیو کلئیر طاقت کے ذریعہ بزعم خویش کسی کمزور ملک کے قسمت کا فیصلہ کر نے والی طاقتیں قدرت کے سامنے بے بسی کے آنسو بہانے پر مجبور ہیں معاشی اور سیاسی اعتبار سے سپر پاور کہے جانے والے ممالک کرونا وائرس کے مقابل گھٹنے ٹیکتے نظر آرہے ہیں انسان کا گھر خود ساختہ قید خانہ بن گیا ہے غرض کہ دنیا سورج کی شعاؤ کے باوجود بجھی بجھی سی نظر آرہی ہے
آج کا دور جسے مکمل طور پر سائنسی دور کہا جاتا ہے جس دور میں محالات کو ممکنات کے منزل میں اتارنے کی بات کی جاتی ہو جس دور میں مصنوعی انسانوں سے حقیقی انسانوں والا کام لیا جاتا ہو جس زمانے میں جدید قسم کی ایجادات سے انسان محو حیرت ہو اس زمانے میں کسی ترقی یافتہ ملک کا سربراہ ایک بیمار سے تنگ آکر اگر یہ کہے کہ،،ہم نے زمین کے سارے وسائل کا استعمال کرلیا اب آسمان سے کسی مدد کے منتظر ہیں،، تو انسان کو سمجھ لینا چاہئے سائنس کتنی بھی ترقی کرلے پر قدرت کے بہت سے رموز وأسرار ایسے ہیں جن کا پتہ سائنس چاہ کر بھی نہیں لگا سکتی اور ہاں،، کوئ ایسا مرض نہیں جس کی دوا نہیں،، والے قول سے بنی نوع انسانی کو قدرت کے سامنے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے رجوع کرلینا چاہیے