تحریر:ظفر نوری ازہری
ایڈیٹر: ماہ نامہ الحجاز(ہندی) گوالیار
شب برات کے موقع پر ایسالگ رہا ہےکل سےشوشل میڈیا پر معافی ناموں کی ایک باڑھ سی آگئی ہو ہر کوئی معافی کا میسیج فارورڈ کر ہاہے کچھ تو ایسے بھی معافی مانگنے والے ہیں جو ایک ہی میسیج کو صرف کاپی پیسٹ کر کے سوشل میڈیا پربنے گروپوں پر شیر کر رہے ہیں
میرے بھائیوں !
یہ معافی نہیں ہے بلکہ ایک ڈھکوسلا ہے اور میرے خیال سے اس طرح معافی مانگنے کو کو ” تُکہ معافی” بھی کہہ سکتے ہیں جس میں اگر تُکے سے تیر نشانے پر لگ جاتاہے اور کسی نے اس پر معاف کردیا تو بات بن جاتی ہے اگر نہیں معاف کیا تو پھر یہ صرف سوشل میڈیائی میسج ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے
آج ہم اس بات کو سیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اسلامی نقطہ نظر سےمعافی مانگنے اور معاف کرنے کی کیا اہمیت ہے؟
یہ بات صحیح ہے کہ معافی مانگنا بہت اچھی بات ہے اگر ہم نے کسی کو تکلیف پہونچائی ہے کسی کا دل دکھایا ہے،کسی کو اذیت دی ہے تو ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ جب تک وہ شخص ہمیں معاف نہیں کرےگا تب تک ہمارا مولی بھی ہمیں معاف نہیں فرمائےگا! یہ حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے! اس لئے ہمیں کسی کا دل نہیں دکھانا چاہیئے پھر بھی اگر جانے یا انجانے میں کسی سے کسی کا دل دکھ جائے تو اس سے دل سے معافی مانگے اس کی دل جوئی کرے اس کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرے اپنے کئے پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرے اوراگر تحفہ تحائف دینے کی ضرورت پڑے تو وہ بھی دے جب تک وہ دل سے معاف نہ کردے
معافی مانگیں کیونکہ معافی مانگنے کا اصلی اور صحیح طریقہ یہی ہے اور یہی اختیار کرنا چاہیے۔
اور جب کو ئی دل سے معافی مانگے تو سامنے والے کو بھی چاہئیے کہ وہ معاف کردے کیونکہ معاف کرنا یہ بہت بڑی بات ہت اللہ پاک نے قرآن شریف میں معاف کرنے والوں کی فضیلت اس طرح بیان فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں ارشاد باری تعالی ہے:
"والْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿آل عمران: ١٣٤﴾”جوغصہ پینے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دینے والےہیں ،اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت فرماتاہے”
اور دوسری جگہ ارشادِ باری تعالی ہے کہ : "واذاما غضبواھم یغفرون (سورہ شوری٣۷) "جب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں”
اور تیسری جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ: "وجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (سوره شوری40)”برائی کا بدلہ اسکے مثل برائی ہے پھر جس نے معاف کردیا اور صلاح کرلی تو اسکا اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے”
اور چوتھی جگہ ارشاد باری تعالی ہے کہ: ولَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (سورہ شورہ 43)اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا ضرور یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی کئی آیات اور احادیث کریمہ ہیں جن میں معاف کر نے والوں کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ان میں سے صرف دو حدیثیں ملاحظہ فرمائیں:
۱-عن أبي هريرة عن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله۔
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔”(صحیح مسلم)
۲-عن عائشة رضي الله عنها قالت: لم يكن رسول الله فاحشاً ولا متفحّشا، ولا صخابا بالأسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح.
ترجمہ "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی
ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دےتےتھے اور معاف فرمادیا کرتےتھے اور درگزر فرماتے تھے”(ترمذی)
ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دےتےتھے اور معاف فرمادیا کرتےتھے اور درگزر فرماتے تھے”(ترمذی)
مذکورہ بالا قرآن کریم کی آیات و احادیث کریمہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اسلام میں معاف کرنے والوں کی بڑی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں پر سچے دل سے معافی مانگیں صرف میسیج بھیج کر فورملٹی پوری نہ کریں اور صرف گفتار کے غازی نہ بنیں بلکہ کر دار کے غازی بنیں اور قول و فعل میں مطابقت رہے اور ان میں تضاد سے کوسوں دور رہیں! یہ یہ بھی واضح رہے کہ جب ہم سے کوئی معافی مانگے تو کشادہ دلی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کردیں۔
اور شب برات ایک مقدس و متبرک رات ہے ایسےحسین موقع پر اپنے گناہوں کی اللہ تعالی سے بھی معافی مانگیں!
فقیر کو بھی دعا میں یاد رکھیں۔