پال گھر لنچنگ: ماضی کی تربیت کا نتیجہ!

تحریر: نعیم الدین فیضی برکاتی
اس وقت پوری دنیا بھلے ہی کرونا سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگی ہو ئی ہو اور وہاں کے حکمرانوں کے ذریعہ اس بیماری کے خلاف محاذآرائی کے لیے اتحاد واتفاق کا درس دیا جا رہا ہو۔مگر بھارت میں معاملہ کچھ الگ ہی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم تو بار بار یہاں کے شہریوں سے بغیر کسی بھید بھاؤ کے بحیثیت ہندوستانی ایک اور متحد رہنے کی اپیل کر رہے ہیں۔لیکن فرقہ پرست عناصر اور ہر معاملے میں نفرت کا بیج بونے والے ٹھیکیدار اپنی پرانی عادت سے بالکل بھی باز نہیں آرہے ہیں۔انہیں تو اب بھی نہ وزیر اعظم کی اپیل کا پاس و لحاظ ہے نہ کرونا کے تیزی سے پھیلتے ہو ئے خطرات کا احساس۔انہیں تو ہرحال میں اپنی پرانی روش پر چلنا ہے اورہرمعاملہ میں مذہب کا پہلو ڈھونڈ کر سیاسی روٹیاں سینکنی ہیں اوربس۔چاہے اس کا انجام کچھ بھی ہو۔
پال گھر سے تقریبا سو کلو میٹر کی مسافت پر ایک افواہ کے چلتے دو سادھؤں سیمت تین لو گوں کو ایک بے قابو بھیڑ کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔جو افسوس ناک اور شرم ناک بات کے ساتھ ملک کے ماتھے پربد نما داغ ہے۔ہمارا ملک تو کچھ سالوں قبل محبت اور امن کا گہوارہ تھا۔بھارت کے گنگا جمنی تہذیب کی مثالیں بیان کی جاتی تھیں۔یہاں تو مختلف مذاہب کے پیروکار لوگ بڑے ہی اطمینان اور چین سے آپسی بھائی چارگی کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے۔آخر اچانک کیا ہو گیا عزیز ازجان سر زمین کو!کس کی نظر لگ گئی اس ملک کو کہ یہ نفرستان میں تبدیل ہو گیا؟جی ہاں! ہمیں سنجیدگی کے ساتھ غور کر نے کی ضرورت ہے کہ ہم سے ماضی میں کون سی چوک ہوئی جس کی وجہ سے یہ ہندوستان،لنچستان بن گیا۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر ان شر پرستوں کے اندر اتنا حوصلہ اور غصہ کہاں سے آتا ہے جو کسی کی جان لے کر ہی ٹھنڈا ہو تا ہے۔کیا ان کو قانونی کاروائیوں اور سزاوں سے ڈر نہیں لگتا یا یہ سب ماضی کی پرورش کا نتیجہ ہے؟
 مرکزی حکومت کے پچھلے پانچ سال کاجائزہ لینے کے بعد ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کثیر تعداد میں ایسے واقعات وحادثات انسانی بموں کے ذریعہ خوب دھڑلے کے ساتھ انجام دیے جاتے رہیں ہیں۔ شر پسند عناصرموقع بہ موقع حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے مختلف جگہوں پر اپنے خونی پنجوں کا شکار ہمیشہ اقلیتی طبقہ کے افراد کو بناتے رہے ہیں۔اس پر ڈھٹائی یہ ہوتی تھی کہ اس واقعہ کا ویڈیو بناکر پورے سماج میں ایک خاص طبقہ کے اندر خوف وہراس کا ماحول پیدا کرکے نفرت پھیلائی جاتی رہی ہے۔ جے شری رام کے نعرہ کا سیاسی استعمال کر کے مذہبی عصبیت کو فروغ دیا جاتا رہا ہے۔ان ویڈیوز کامقصد صرف اتنا ہوتا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا اقلیتی طبقہ ان واقعات سے سہم کر خوف و دہشت کے سائے میں اپنی زندگی کے ایام گزارنے پر مجبور ہوجائے۔اس پرملک کی ستم ظریفی یہ کہ اسی کو دیش بھکتی کا معیار سمجھا جانے لگا۔انصاف پسند لوگوں نے اس کے خلاف آوازیں بلند کی،مگر انہیں بھی ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ان موت اورنفرت کے پجاریوں کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں تھا کہ ایک دن اسی ظلم وستم کے آگ کی آندھی کا رخ جن کو ماضی میں اقلیتوں کے لیے خوب بھڑکایا گیا تھا،انہیں کے گھر اور محلہ کی طرف ہوگا جس سے خود ان کے گھر بھی جل کر خاکستر ہوجائیں گے۔ کیوں کہ ان بھیڑیوں کے غول کا کوئی مذہب ہے نہ ہی کسی سے ہمدردی کا تصور۔حقیقت یہ ہے یہ پروردہ افراد نہ ہی مذہب کی نشر واشاعت میں سواے بدنامی کے کوئی رول ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے انسانیت کے اصولوں کی پاسداری ہوسکتی ہے۔وہ تو انسان نما حیوان ہیں۔وہ کسی پر اپنے خونی پنجوں کو دھنسا کر اپنی پیاس بجھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔
موجودہ دور میں بے شک سوشل میڈیا خبروں کی اشاعت اور حصول یابی کا سب سے بڑا ہتھیار ہے،بشرطیہ کہ اس کا مثبت استعمال ہو۔لیکن اگر اس کے منفی استعمال کاچلن عام سے عام تر ہوجائے اور لوگوں کے دل ودماغ پراس کا قبضہ جم جائے تو ان لنچنگ کے واقعات پر قابو پانا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔در اصل ان واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ساتھ دو چیلینجز ہیں۔ایک سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر قد غن لگانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم۔دوسراشرپسند عناصر کے خلاف سخت سے سخت قانون بناکر عبرت ناک سزائیں دلوانا۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کسی وجہ سے دونوں چیزوں پر کام نہیں ہوپایا۔نہ تو سوشل میڈیا کے ذریعہ افواہ اور نفرت بھیلانے والے عملہ اور افراد پر روک لگائی گئی اور نہ ہی لنچنگ کی وارداتیں انجام دینے والے ان نام نہاد غیر سیاسی بھڑیوں پر کوئی سکنجہ کسا گیا۔بلکہ پھول کے ہار اور سیاسی عہدوں کوپیش کر کے ان کی پرورش اور حوصلہ افزائی کی گئی۔یہ میں نہیں پورے ملک کو ان چیزوں کے کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی کہ بھارت میں ان کو ایک خاص مقصد کے تحت پال پوس کر تیار کیا گیا ہے جس کا نتیجہ آج پال گھر میں سنتوں کی لنچنگ کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔پچھلے پانچ سال کے دورانیے میں جب جب دلت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔گائے اور شری رام کے نام پراخلاق،جنید،افرازل،ان

سپکٹر سبودھ سنگھ اور تبریز انصاری سمیت تقریبا پانچ درجن افراد کو بے رحمی سے مار مار قتل کر دیا گیا۔وہ سب ظلم سے بھری داستانیں آج بھی سب کو یاد ہیں۔دادری میں محمد اخلاق کو فریج میں بیف کے شک کی بنیاد پر اینٹ اور پتھروں سے اتنا مارا گیا کہ وہ بے موت مر گیا۔17سالہ نوجوان

 جنید کو ہریانہ کے بلبھ گڑھ میں اس کے بھائیوں کے سامنے چلتی ٹرین سے پیٹ کر موت کے منہ میں ڈھکیل دیا گیا۔راجستھان میں مغربی بنگال کے افرازل کا بہیمانہ قتل کیا گیا اور بعد میں عدلیہ کے چھت پر چڑھ کر زعفرانی پرچم لہرا کر ہندوستانی جمہوریت کا خون کیا گیا۔بلند شہر میں جاں باز انپسکٹر سبودھ سنگھ کو بھگوا شرپسندوں نے اس لیے گولی مار دی کیوں کہ انہوں نے گائے کے نام پر انسانی جانوں سے ہولی کھیلنے والوں کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا تھا۔جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کی آہ وبکا آج بھی سب کو یاد ہے جس کو بچہ چوری کے جھوٹے الزام میں حیوان نما بھیڑیوں نے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر موت کی نیند سلا دیا۔میرا سب بڑا سوال یہ ہے کہ ان واقعات پر حکومتی رد عمل کیا تھا؟ انسان کے بھیس میں چھپے ان حیوانی درندوں کے خلاف کیا کاروائیاں ہوئیں؟
  اگر سننے کی طاقت بچی ہو توغور سے سنیں اور ہوش کے ناخن لیں!آج بھی بھارت کا ہر انصاف پسند باشندہ یہی کہہ رہا ہے کہ اگر ماضی میں ہوئیں لنچنگ کے معاملوں میں مرکزی اور ریاستی حکومت نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا ہوتااور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر انہیں عبرت ناک سزائیں دلوائیں ہوتیں تو آج پال گھر کا سانحہ ہر گز نہیں ہوتا۔جی ہاں! جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کو جن شرپسندوں نے بچہ چوری کے شک کی بنیاد پر باندھ کر بے رحمی سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتارا تھا،اگر ان مجرموں کے خلاف ٹھوس قانونی کاروائی کر کے دردناک سزا دلواکر انصاف کا مظاہرہ کیا گیا ہوتا تو پال گھر میں ان سنتوں کو اگر بچہ چور سمجھ کر پکڑ بھی لیتے،توقانون سے کھیلنے کے بجائے ان کو قانون کے حوالے کر نے میں عافیت سمجھتے اور اسی کو ترجیح بھی دیتے۔میرا ماننا یہ ہے کہ ابھی بھی وقت ہے۔اگر ذمہ داروں نے آج بھی قانونی فوقیت کو یقینی بنالیا،پولس اور عدالتی نظام میں سیاسی عمل دخل کو کلی طور پر ختم کرلیا تویقینا ہر چہار جانب عدل و انصاف اور امن وشانتی کا پرچم فخر کے ساتھ پورے ملک میں لہرائے گا جس کے سائے میں ہر ہندوستانی اطمینان اور چین کی سانس لے گا ورنہ تو مستقبل میں بھی یہ وحشی جانور اپنے خونی پنجوں میں جکڑ کر بلا تفریق مذہب وملت کسی کو بھی شکار بنا کرانسانیت کا جنازہ نکالتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے