تحریر: مجیب الرحمن، جھارکھنڈ
رابطہ 7061674542
محرم الحرام کامہینہ ختم ہونے کے بعد ہم جس مہینہ کا آغاز کررہے ہیں اس کی ایک کہانی ہےجس کو لوگوں نے گڑھ لیا ہے حقیقت سے جس کاکوٸ تعلق نہیں وہ کہانی ایسی ہے کہ جس میں اس مہینہ کے تٸیں گڑھی ہوٸ تمام خرافات جمع کردی گٸ ہیں اور اس کو منحوس قراردیا گیا ہے ہر عمل خیر کو اس میں بجالانے سے گریز کیا جاتا ہے معلوم ہونا چاہۓ کہ شر و خیر کا تعلق کسی مہینہ سےنہیں ہوتا بلکہ یہ سب اللہ کے دست قدرت میں ہے وہ کسی مہینہ اور دن کا محتاج نہیں پورا نظام کاٸنات اسی کے ہاتھ میں ہے کسی مہینہ اور دن کو منحوس سمجھنا اور اس میں عمل خیر کو کرنے سے گریز کرنا قطعا درست نہیں خدا نے کسی مہینہ کو یا دن کو نحوست والا نہیں بنایا بلکہ لوگوں نے گڑھ لی ہیں اور اپنی عاقبت خراب کرنے کے درپے ہو گۓ ہیں خدا وند ارشاد فرماتا ہے کہ لوگ زمانہ کو گالی دیتے ہیں جب کہ زمانہ میں ہی ہوں اور دنیا کا الٹ پھیر میرے ہی ہاتھ میں ہے ، ذیل کی سطروں میں صفر کا تعارف اس کی اہمیت اور اس میں گڑھی ہوٸ چند نحوستوں کا ذکر کیا جارہا ہے “
صفر کے معنی آتے ہیں خالی کرنے کے“ صفر کو صفرکہنے کی وجہ یہ ہے ک اہل عرب حرمت والے مہینوں میں جنگ و جدال قتل و غارت گری سے گریز کرتے تھے اسلۓ وہ اپنے ہی گھروں میں رہتے تھے لیکن جب صفر کامہینہ شروع ہوتا تو وہ جنگ وجدال کرنے کلۓ اوران کاموں کو جن کو وہ حرمت والے مہیںنوں میں نہیں کرتے تھے اس کو انجام دینے کیلۓ گھرسے نکل جاتے تھے جس کی بنا پرگھر خالی ہوجاتا تھا تو اہل عرب کہتے ” صفر المکان “ ماہ صفر کے متعلق بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس میں جو اچھا کام کیاجاتا ہے اسمیں برکت نہیں ہوتی ہے اور اس کام کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا خصوصا شادی کے تعلق سے یہ خیال تھا کہ اس مہینہ میں کیجانی والی شادی برقرار نہیں رہتی اس میں محبت و برکت نہیں ہوتی ناچاقیاں پیدا ہوجاتی ہیں یہی سوچ کروہ اس مہینہ میں شادی نہیں کرتے تھےمعلوم ہونا چاہۓ کہ آپ ﷺ کی جو سب سے پہلے شادی حضرت خدیجہ ؓ سے ہوٸ تھی وہ اسی ماہ صفر میں ہوٸ تھی کیا کوٸ بتا سکتا ہے کہ اس شادی میں کبھی دراڑ آیا ہو ؟ یا الفت و محبت میں کوٸ کمی آٸ ہو ؟ خدیجہ کی محبت کا حال یہ تھا کہ اس نے آپ ﷺ کی محبت میں سب کچھ لٹا دیا حضور کا حال یہ تھا کہ خدیجہ کی وفات کے بعد بکثرت حضرت خدیجہ ؓ کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور جب کبھی کوٸ بکری وغیرہ ذبح کرتے تو ان کی سہیلیوں تک بھی بطور ہدیہ بھیج دیا کرتے تھے برکت کا یہ حال کہ آپﷺ کی چار اولادیں ان ہیں سے پیدا ہوٸیں ، اسی طرح حضرت علی ؓ و فاطمہؓ کا نکاح بھی اسی مہینہ میں ہوا کیا ان دونوں کا نکاح کامیاب نہیں ہوا ؟ کیا ان میں برکتیں نہیں ہوٸیں جی نہیں اس نکاح نے تو دنیا کو میاں بیوی کو جینے کا ایک ایسا انمول تحفہ دیا جو ہر میاں بیوی کیلۓ مشعل راہ ہے اسی مہینہ میں اسی جوڑی سے امام حسن ؓ کی ولادت ہوٸ اور پھر اس کے بعد شعبان میں امام حسین کی ولادت ہوٸ جن کے بارے میں حضور نے فرمایا ” یہ دونوں جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں “ اور فرمایا ” یہ دونوں میرے دنیا کے پھول ہیں “ امام حسن کی قربانیوں اور ان کے کارناموں
کی ایک تاریخ ہے “ معلوم ہوا کہ اس مہینہ میں کام کرنے میں کوٸ نحوست ہے اور نہ کوٸ اور دوسری خرابی جو گرھ لی گٸ ہیں اگر اس طرح کی چیزیں ہوتی تو حضور اپنا نکاح اور پھر اپنی لخت جگر کا نکاح اس مہینہ میں نہ کراتے ، جس طرح دوسرےمہینوں میں اہم واقعات بیش آۓ اسی طرح اس مہینہ میں بھی کچھ اہم واقعات پیش آۓ ہیں مثلا سب سے پہلا غزوہ ”ابوا۶“ جسمیں خود حضور بنفس نفیس شریک ہوۓ اسی طرح ”رجیع “ کا واقعہ اسی میں پیش آیا ”بٸر معونہ کا واقعہ بھی اسی مہینہ میں پیش آیا جسمیں ستر حفاظ شہید ہوۓ تھے اسی طرح عضل و قارہ قبیلہ بنی غذرہ نے اسی میں اسلام قبول کیا تھا لیکن ان سب واقعات کو لیکر کسی مہینہ یا دن کو منحوس سمجھنا بالکل روا نہیں یہ سب نظام قدرت ہے خیر و شر اسی کے ہاتھ میں اور اس کے نظام میں مہینہ یا دن کو دخل نہیں ہے ، اسی طرح سے اس مہینہ کے آخری بدھ کو لوگ سیر و سیاحت کیلۓ نکل جاتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس بدھ کو حضور ﷺ اپنی بیماری سے شفا یاب ہوکر سیر و سیاحت کیلۓ نکلے تھے ، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور نہ جانے کیسے کیسے خرافات گڑھ لۓ ہیں جو بالکل بے وقعت ہیں اس مہینہ کی نحوست کی ترید کرتے ہوۓ حضور ﷺ نے فرمایا ”لاعدوی “ولا طیرہ “ولاھامہ “ولا صفر “ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صفر کے مہینہ میں کوٸ نحوست نہیں یہ سب بیکار اور بے بنیاد باتیں ہیں جن کی کوٸ دلیل نہیں ہے ، ایک مومن کا یہ عقیدہ ہونا چاہۓ کہ تمام خیر و شر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کے بغیرنہ کسی شر کا وجود ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی خیر کا کوٸ شر و خیر کسی مہینہ یا دن سے مربوط نہیں تمام کے تمام مہینہ اور دن خدا کی بناٸ ہوٸ ہیں اور سب کے سب محترم ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان میں بعض قابل محترم ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ سب منحوس ہیں یہ افضلیت کی بات ہے ، لہذا ہمیں چاہۓ کہ ہم ہر قسم کے خرافات سے جو گڑھ لی گٸ ہیں اجتناب کریں اور فاسد خیالات و عقاٸد کو پس پشت ڈال کر صاف ستھری زندگی کی تعمیر کریں ،