اقامت دین فرض ہے(قسط دوم)

امت مسلمہ اپنے حقیقی نصب العین پرجم جائے

تحریر: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر صحافی و کالم نگار۔ حیدرآباد
فون نمبر: 9849099228

فریضہ اقامت دین کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصد کو ہم اچھی طرح جان جائیں تو اپنا نصب العین سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں ہوگی۔
ہم ذرا سورہ توبہ آیت 33‘ سورہ صف آیت 9 اور سورہ فتح آیت 28 کا مطالبہ کریں جس سے معلوم ہوجائے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل مقصد کیا ہے۔
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (توبہ آیت 33 )
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ (ترجمانی از سید مودودیؒ)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ سورہ توبہ کی اس آیت کی تشریح فرماتے ہوئے یوں رقمطراز ہوئے ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت کا سامان یعنی قرآن اور دین حق یعنی اسلام دے کر اسی لئے بھیجا ہے تاکہ اس کو دنیا کے تمام بقیہ دینوں پر غالب کردے۔ تقریباً انہی لفظوں کے ساتھ قرآن کریم میں متعدد آیات آئی ہیں جن میں یہ وعدہ ہے کہ دین اسلام کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کیا جائے گا‘‘۔
تفسیر مظہری کے حوالے سے مزید تشریح فرماتے ہوئے یوں تحریر فرمایا: ’’تفسیر مظہری میں ہے کہ دین اسلام کو تمام دوسرے دینوں پر غالب کرنے کی خوشخبری اکثر زمانوں اور اکثر حالات کے اعتبار سے ہے جیسا کہ حضرت مقدادؓ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر کوئی کچا پکا مکان باقی نہ رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے، عزت داروں کی عزت کے ساتھ اور ذلیل لوگوں کی ذلت کے ساتھ جن کو اللہ تعالیٰ عزت دیں گے وہ مسلمان ہوجائیں گے اور جن کو ذلیل کرنا ہوگا وہ اسلام کو قبول تو نہ کریں گے مگر اسلامی حکومت کے تابع ہوجائیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا، ایک ہزار سال کے قریب اسلام کی شان و شوکت پوری دنیا پر چھائی رہی‘‘۔
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کے عہد مبارک میں تو اس نور کی تکمیل و اتمام کا مشاہدہ ساری دنیا کرہی چکی ہے، اور آئندہ بھی دلائل اور حقائق کے اعتبار سے ہر زمانہ میں دین اسلام ایسا مکمل دین ہے کہ کسی معقول پسند انسان کو اس پر حرف گیری کا موقع نہیں مل سکتا‘ اس لئے کفار کی مخالفتوں کے باوجود یہ دین حق اپنی حجت و دلیل کے اعتبار سے ہمیشہ غالب ہے، اور جب مسلمان اس دین کی پوری پیروی کریں تو ان کا ظاہری غلبہ اور حکومت وسلطنت بھی اس کے لوازم میں سے ہے۔ جیسا کہ تاریخ اسلام کا تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے قرآن وسنت پر پوری طرح عمل کیا تو کوئی کوہ و دریا ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا، اور پوری دنیا پر غالب آکر رہے، اور جب کبھی جہاں کہیں ان کو مغلوب یا مقہور ہونے کی نوبت آئی ہے، قرآن وسنت کے احکام سے غفلت اور خلاف ورزی کا نتیجہ بدتھا، جو اْن کے سامنے آیا، دین حق پھر بھی اپنی جگہ مظفر ومنصور ہی رہا۔ (معارف القرآن معارف مسائل جلد چہارم صفحہ 366)
مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی تشریح سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ دنیا میں جتنے بھی ادیان پائے جاتے تھے ان سب پر دین اسلام کو غالب کیا جائے۔ چاہے اس سے باطل ادیان کے پرستاروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عملاً غالب کرنے کیلئے پوری حیات طیبہ لگادی جس کے نتیجے میں ساری دنیا اس نور ہدایت (دین قدیم) کی برکتوں سے مالا مال ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کو ساری دنیا پر غالب کرنے کی کامیاب اور مکمل جدوجہد فرمائی آپؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلفائے راشدینؓ اور بعد کے صالحین نے بھی اس دین کو قائم رکھنے اور قائم کرنے کی بھر پور کوششیں کرتے ہوئے اس کی اقامت کیلئے ہمیشہ مصروف عمل رہے اور کامیابی ان کے قدم چومتی رہی۔ لیکن اس کے لئے انہوں نے قربانیاں پیش کیں، مختصر یہ کہ بعد کے آنے والوں نے جسے ہم سلف صالحین کے مبارک نام سے جانتے ہیں انہوں نے فریضہ اقامت دین کو اپنا نصب العین بنایا اور منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق اللہ کی زمین پر دین کی اقامت کو فرض جانتے ہوئے اپنی زندگیاں لگادیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت مفتی صاحبؒ نے تاریخ کے حوالے سے یہ ایک اہم بات بتلائی کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی شان وشوکت کو ایک ہزار سال کے قریب تک اسے باقی رکھا‘ اور آج بھی دین اسلام کے اندر وہ خوبی باقی ہے جو ہر زمانے کے معقول پسند لوگ اسے حق جانے بغیر نہیں رہ سکتے (وہ کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو اس دین رحمت و دین فطرت کے راستے و طریقہ اور آئین پر حرف گیری کرتا ہو) دوسری طرف نظر ڈالئے جب تک مسلمانوں نے دنیا میں کتاب وسنت پر عمل کیا اور اپنا نصب العین دین کی اقامت بنایا تو ایسی قوت کے مالک بن گئے یہاں تک کہ کوئی کوہ ودریا ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن نہ سکے۔
حضرت مولانا سید ابولااعلیٰ مودودیؒ نے مذکورہ بالا پیرا گراف کو چند لفظوں میں یوں ادا کیا کہ ’’قرآن کی دعوت کو لے کر اٹھو اور دنیا پر چھاجائو‘‘ دنیا پرچھاجانے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس دین رحمت کی اقامت کا حکم کیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے سارے بندگان خدا پر اس کی بہاروں کو چھا دو، اور یہ کام اللہ کی نصرت و پشت پناہی کے بغیر ناممکن ہے اور جو لوگ اس راہ میں جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے راستے ہموار کرتا ہے۔
قرآن حکیم آج بھی ہم سے وہی مطالبہ کر رہا ہے جو اپنے نزول کے وقت کرچکا اور ہم ارے سلف صا لحین سے کیا اور شروع ہی سے اہل ایمان سے کرتے آیا ہے، وہ ہے:
أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا۔
کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔
آَقِ?مْوا الدِّ?نَ کا ترجمہ گذشتہ صدی کے مفسرین و مترجمین صاحبان میں سے بعض نے ’’دین قائم کرو‘‘ کیا ہے اور بعض نے ’’دین قائم رکھو‘‘ کیا ہے، لیکن ان بزرگوں کی اس سلسلہ میں ایک بات مشترک ہے کہ ’’اقامت دین فرض ہے‘‘۔ یعنی اقامت دین کے سب قائل ہیں، اور اقامت دین کو فرض اور اس میں تفرق حرام قرار دیتے ہیں۔
یعنی اصول عقائد مثلاً توحید باری تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر کامل ایمان۔ دوسرا یہ کہ اصول عبادات، نماز، روزہ، حج بیت اللہ، ادائیگی زکوٰۃ کی پابندی، علاوہ ازیں چوری، ڈاکہ، زنا، جھوٹ فریب، دوسروں کو بلاوجہ شرعی ایذا دینے اور عہد شکنی کی حرمت ہے۔ اس کی تعلیمات تو سب انبیاء علیہم السلام کی شرائع میں مشترک اور متفق علیہ چلتی آرہی تھیں۔ اور ہر زمانے میں وقت کے ہر نبی نے اسے قائم کیا، اوراسی کی اقامت کیلئے جدوجہد کی۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی و رسول ہیں اور آپ پر جو کتاب نازل فرمائی قرآن مجید و فرقان حمید اللہ کی طرف سے آخری ہدایت نامہ وآئین حیات ہے۔ اب آپ کے بعد کوئی نبی آنے والے نہیں ہیں۔ آپ کے بعد صرف قیامت آنے والی ہے لہٰذا آپؐ نے دین کو اس کی تمام لوازمات کے ساتھ قائم فرمایا اور دین کا ایک شعبہ بھی ایسا نہیں رہا جس کی رہنمائی نہ کی گئی ہو۔ دین کی تکمیل کا اعلان حجۃ الوداع 10 ہجری کے موقع پر کردیا گیا کہ (دین کو مکمل کردینے سے مراد اْس کو ایک مستقل نظام فکر وعمل اور ایک مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے)۔ جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
’’نعمت تمام کرنے سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کردینا ہے، اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا۔ اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کرچکے ہو، اس لئے میں نے اسے درجہ قبولیت عطا فرمایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت وبندگی کا جوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو، اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کررہنے کے لئے کوئی مجبوری تمہیں لاحق نہیں رہی۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے۔ مگر انداز کلام سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حدود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو‘‘ (سورہ مائدہ آیت 3 تفہیم القرآن)
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اس دین کو کمال درجہ مکمل فرمایا اور اس پر نعمتیں برکتیں اور ہر طرح کی اجتماعی قوت و طاقت بھی عطا فرما دی تاکہ اہل ایمان آگے بھی اسی طرح ان نعمتوں اور ایمانی قوت کے ساتھ دین کو قائم رکھیں۔ اس کی نشر و اشاعت کیلئے کمر بستہ رہیں۔ جس دین کو اللہ نے پسند فرمایا ہے اسے دیگر بندگان خدا تک اس کا پیغام پہنچائیں، اب قیامت تک کیلئے یہ بات بھی قرآن میں صاف صاف بتلادی گئی کہ
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران آیت 110)
تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر۔
’’نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو بتایا جارہا ہے کہ دنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نااہلی کے باعث معزول کیے جاچکے ہیں اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو۔ اس لئے کہ اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہوگئی ہیں جو امامت عادلہ کے لئے ضروری ہیں۔ یعنی نیکی کو قائم کرنے، بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہ لاشریک کو اعتقاداً و عملاً اپنا الٰہ اور رب تسلیم کرنا۔ لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہیں لازم ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کرچکے ہیں‘‘۔ (اقتباس تفہیم القرآن)
(جاری)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے