تحریر: انوار الحق قاسمی
واٹس ایپ:9779811107682+
چند دنوں قبل انڈیا کی ریاست کرناٹک کے اوڈیپی اور کنڈا پور کے اسکول اور کالجز سےمسلم طالبات کوحجاب زیب تن کرنے کی بنا تعلیم سے روکتے ہوئے، پورے ملک میں عموماً اور ریاست کرناٹک میں خصوصاً غیرت و حمیت سے معمور مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج و مظاہرے کیے گئے ،جو تا ہنوز جاری بھی ہے اور اسے اس وقت تک جاری بھی رہنا چاہئے،تا آں کہ عدالت عالیہ کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ آجائے۔
اس موقع سے میں یہ واضح کردینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ میرا تعلق سے نیپال سے ہے؛ مگر مجھے نیپال کے ساتھ ساتھ ہندو ستان سے بھی بے پناہ محبتیں ہیں ،اور محبت کیوں نہ ہو،جب کہ میری نشوونما ہندوستان ہی میں ہوئی ہے اور میں نےمسلسل گیارہ سال تک ہندوستان ہی کے اکابر علماء سے فیض پایا ہے،اور مجھ میں جو کچھ بھی ہے وہ ہند کے مدارس(جن میں نمایاں نام دارالعلوم/ دیوبند اور اشرف العلوم/ کنہواں سیتامڑھی بہار کا ہے) ہی کادین اور مرہون منت ہے،تو پھر کیوں مجھے ہندوستان سے محبت نہ ہوگی ؟یہ تو محسن کے احسان کا تقاضا بھی ہے۔
اسی محبت اور غیرت ایمانی کی بنا ریاست کرناٹک کے بعض کالجز کی جانب سے باحجاب مسلم طالبات کو تعلیم سے روکنے کی خبر دیکھ کر مجھے کافی صدمہ ہوا اور عقاب دوام پہنچا۔
یہ بات مجھے اب تک سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آخر ہندستانی ہندوؤں کو مسلمانوں سے اس قدر بیزاری کیوں ہے کہ وہ ہر ماہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے قرآن و سنت کے خلاف ایک نہ ایک نیا قانون صادر کرتے ہیں؟کیا مسلمان انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں یا انہیں مسلمانوں سے محض اسلام کی بنیاد پر عداوت ہے؟ اس عداوت کا سبب شق اول تو ہے نہیں ،کیوں کہ یہ کنفرم ہے کہ مسلمان انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی تلقین نہیں کرتے ہیں،تو پھر شق ثانی متعین ہوگئی یعنی مسلمانوں سے عداوت کی بنیاد مذہب اسلام ہے۔
یہی وجہ ہے بارہا اخبارات کی سرخیوں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنایا جائے اور اکثر غیر سنجیدہ ہندوؤں کا یہی خواب ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کیا کبھی ان کے اس خواب کی تکمیل بھی ہوگی یا خواب،خواب ہی تک رہ جائے گا،ابھی میں اس عنوان پر کچھ بھی کلام نہیں کرتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے کہ آئے دن ان پر زمین تنگ ہورہی ہے اور ان کے خلاف ہر ماہ کوئی نہ کوئی نیا فرمان ضرور آہی جاتاہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سرزمین ہند میں مسلمانوں کا حصہ کیوں کر نہیں ہوسکتا ہے، جب کہ اس ملک کے لیے سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہی کردار ہے اور آزادی ہند کے لیے ان کے اکابر نے نا قابل فراموش قربانیاں پیش کی ہیں، جو ہر ایک سامنے عیاں ہیں،باجود ان قربانیوں کے ہندوستان میں اگر ان کا حق اور حصہ نہیں ہوگا،تو پھر کن کا؟ جب ہندوستان میں مسلمانوں کا حصہ ہے،تو پھر ہندوؤں کی طرف سے بار بار ان پر یلغاریں کیوں ہوتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ متشدد ہندوؤں کا خیال ہے ہندوستان میں شان وشوکت کے ساتھ جینے کا حق صرف ہندوؤں کو ہے؛مگر معاملہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان بھی رعب داب والی زندگی بسر کررہے ہیں؛اس لیے انہیں تکلیف ہورہی ہے۔
ان غیر سنجیدہ ہندوؤں کے معاملات سے مجھے لگتا ہے کہ ان کا مسلمانوں کے تئیں موقف یہی ہے کہ یا تو مسلمان ہندوستان چھوڑ دے یا نہیں تو غلامی کی زندگی بسر کریں اور مسلمانوں کے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ناممکن ہے۔کیا آزادی کی مشعل روشن کرنے والے پھر دوبارہ غلامی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ہرگز نہیں،کبھی ایسا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستان چھوڑنا ان کے لیے ممکن ہے۔
تو پھر جب مسلمانوں کے لیے ان دونوں شقوں میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرنا نا ممکنات میں سے ہے،تو پھر یہ لوگ ایک ایسے خواب کی تکمیل میں کیوں لگے ہوئے ہیں،جس کی کبھی تکمیل ہی نہ ہوگی؟بس یہ سب اس میں ذہنی امراض اور قلبی فسادات کی بنا لگے ہوئے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلمان متحد ہوکر ان کے ذہنی امراض کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ قلبی فسادات بھی دور کریں؛ورنہ ان کے امراض اور فسادات میں آئے دن ترقی ہی ہوگی اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو پریشان کرنے کا سلسلہ دراز ہی ہوتا جائےگا۔
یہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ ان کے ذہنی امراض کا علاج اور قلبی فسادات کا خاتمہ بغیر باہمی اتحاد و اتفاق کے انتہائی مشکل ہے؛کیوں کہ ایسے بھی ملک میں مسلمانوں کی تعداد ان کے مقابلے کم ہے اور اس میں بھی اختلافات رہے،تو پھر کیسے ان کا علاج اور خاتمہ ممکن ہوگا۔
اس لیے ہندوستان میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور ذہنی وقلبی سکون کے لیے تمام مسلمانوں کا باہمی اتحاد ضروری ہے؛ورنہ اس کے بغیر ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود بھی خطرے میں لگ رہاہے۔
کم از کم اپنے لیے نہیں،تو اپنی اولادوں کے لیے بھی باہم مل جائیں اور پھر ان کے ذہنی امراض کا علاج اور قلبی فسادات کا خاتمہ کریں،تاکہ آپ کی اولاد آپ پر فخر کرے ،جیسا کہ آپ اپنے اکابر اور آبا و اجداد پر فخر کرتے ہیں۔