دُوہرا رویہ

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کرنا ٹک کے کولار میں ایک سرکاری اسکول ہے، جہاں مسلم بچے بھی پڑھتے ہیں، اوما دیوی وہاں کی ہیڈ مسٹریس ہیں، ایک جمعہ کو انہوں نے چند مسلم بچوں کو اسکول کے ایک کمرے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی، بچوں نے ان کی اجازت کے بعد نماز ادا کی ، بس کیا تھا، فرقہ پرستوں کو ایک موقع مل گیا، نماز کی ویڈیو وائرل کی گئی ، میڈیا میں اس پر بحثیں شروع ہوئیں، اوما دیوی کو نہ صرف جانچ کاسامنا کرنا پڑا؛ بلکہ انہیں معطل کر دیا گیا، کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے ان کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا اشارہ بھی دیا ہے، یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے۔
اس کے بالمقابل دوسرا رویہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بیش تر سرکاری اسکول میں سرسوتی دیوی کی پوجا ہوتی ہے، مورتیاں لگائی جاتی ہیں،بچوں سے روپے وصولے جاتے ہیں،اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی، اگر اسکول سارے مذاہب کے لیے ہیں اور سیکولرزم کی وجہ سے نماز پڑھنے کی اس میں اجازت نہیں ہے تو مورتی پوجا کو بھی روکنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ بھی سیکولر اقدار کے خلاف ہے۔
واقعہ کوئی بھی ہو، مسلم میڈیا کو ساری کمزوری مسلم اداروں میں نظر آنے لگتی ہے کہ وہ آگے کیوں نہیں آتے ، خاموش کیوں رہ جاتے ہیں، عدالت سے کیوں رجوع نہیں کرتے،مسلم قیادت کو مطعون کرکے مسلم میڈیا اور صحافی حضرات دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، یقینا مسلم ادارے اور تنظیموں کو آگے آنا چاہیے،لیکن آپ کے پاس خبر رسانی کاجو نظام ہے اس کو کام میں کیوں نہیں لاتے ہیں، اس قسم کے مسائل میں آپ کی بیداری ملک وقوم کو بیدار کر سکتی ہے؛ اس لئے اردو میڈیا اور صحافت کو بھی سود وزیاں سے اوپر اٹھ کر اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے ، تبھی اس پر قابو پانا ممکن ہوسکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے