ازقلم: فرمان مظاہری بارہ بنکوی
کل دہلی کے جہانگیرپوری میں سپریم کورٹ کے اسٹے آرڈر کے باوجود جو بلڈوزنگ کاروائی ہوئی ہے وہ انتہائی مذموم اور بہت ہی بھیانک انتقامی کاروائی ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ کل کا منظر دیکھ کر دل بہت ہی غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔ آنکھیں اشکبار ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے ملک سے جمہوریت کو کھرچ کھرچ کرختم کیا جا رہا ہے۔ بار بار دل میں یہ خیال آرہا ہے کہ 1947 کی تقسیم ہم ہندی مسلمانوں کے لئے بہت ہی مضر اور مہلک ثابت ہو رہی ہے۔ دوسری جانب خیال یہ بھی آتا ہے کہ گھبراؤ نہیں اے ہندی مسلمانو ! یہ بلڈوزر کیا چیز ہے تم نے تو شعب ابی طالب کی مشقتیں برداشت کی ہیں۔ پہاڑ کی تنگ گھاٹیوں میں تمہارا سالوں قید و بند رہنا ، تمہارے بچوں کا بھوک و پیاس کی وجہ سے بلکنا اور تڑپنا۔ تمہیں چلچلاتی ریت میں ننگے بدن گھسیٹا بھی گیا ہے۔ تم پر کفار نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ تمہارے ننھے معصوم بچوں کو قتل کرکے نیزوں پر اچھالا گیا ہے۔ تمہیں تو ابلتے تیل میں بھی ڈالا گیا ہے۔ تمہارا دنیا میں بہت بار اجتماعی قتل عام ہوا ہے۔ تمہیں ملک سے باہر نکال کر سمندروں میں بھی پھینکا گیا ہے۔ تم پر تاتاریوں کا قہر و غضب بھی نازل ہوا ہے۔ لیکن تم نے نہ کبھی توحید سےسمجھوتہ کیا۔ اور نہ کبھی اپنا ایمان بیچا۔ نہ کبھی جھکے۔ اور نہ کبھی بکے۔ بزدلی ، ڈر اور موت کا خوف یہ تمہاری تاریخ نے کبھی جانا ہی نہیں۔ تمہیں مٹانے کا خواب دیکھنے والے اس دنیا سے مٹ گئے لیکن تمہیں مٹا نہیں سکے۔
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
پہلے اپنی توحید کو مضبوط کیجیے۔ پھر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے اللہ پر توکل کیجیے۔ شرک و بدعات بالکل چھوڑ دیجئے۔ مردہ پرستی سے باز آجائیے۔ فرقہ پرستی سے باہر نکلئے۔ بغض ، کینہ ، حسد اور عناد جیسی بیماریوں سے اپنے آپ کو پاک و صاف کر لیجئے ، روزانہ پانچ وقت اپنی پیشانی صرف خدائے وحدہُ لاشریک لہٗ کے آگے جھکائیے۔ تو ان شاءاللہ کسی دَر پر نہ جھکنا پڑے گا اور نہ کہیں پیشانی رگڑنی پڑے گی۔ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے موحّد بندوں کو کبھی ذلیل و خوار نہیں کرے گا۔ بشرطیکہ رب کے مکمل فرمانبردار بن کر زندگی بسرکریں۔
اس وقت ہمارے ملک میں مذہبی منافرت عروج پر ہے۔ مذہبی غنڈوں کا آتنک شباب پر ہے۔ ان کے ذریعے کہیں حجابی خاتون کو ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ تو کہیں دو منٹ کی اذان پر بوال کاٹا جا رہا ہے۔ ان کوکبھی ہماری قربانیوں پر اعتراض ہوتا ہے تو کبھی ہمارے نماز پڑھنے پر انہیں دقت ہوتی ہے۔ وہ مسلم دشمنی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اپنی گلی اور محلوں میں کسی مسلمان کا سبزی ، چوڑی اور کپڑا بیچنا بھی انہیں پسند نہیں آرہا ہے۔ انہیں اپنی مندروں کے پاس سے ہم مسلمانوں کا گزرنا بھی برداشت نہیں ہے۔ کہیں کسی پر چوری کا الزام لگا کر پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے تو کہیں گائے کے نام پر لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح روزانہ نت نئے مسائل پیدا کرکے گدھ نما میڈیا کو ٹی وی پر چیخنے اور چلانے کا مواد فراہم کیا جا رہا ہے۔ ان سب باتوں سے آخر کیا چاہا جا رہا ہے ؟ کیا ایسا ماحول پیدا کرکے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے ؟ کیا نفرتوں کو بڑھاوا دیکر ملک میں امن و سکون قائم کیا جا سکتا ہے ؟ کیا ملک میں لاء اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز نہیں ہے ؟ کیا اس ملک کی عدلیہ پر سے ان لوگوں کا بھروسہ اٹھ چکا ہے ؟ نوبت یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ ہر فیصلہ خود ہی سڑکوں پر ہی کردیا جا رہا ہے۔ اگر وقت رہتے حکومت نے ان غنڈوں پر لگام نہیں لگائی تو یہ لوگ ملک کے لئے ناسور بن سکتے ہیں۔ یہی لوگ ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑی رکاوٹ بھی بنیں گے۔
حالیہ فسادات میں ایک نیا پیٹرن اپنایا جا رہا ہے۔ تہوار کے موقع پر چند ہندوؤں کا پہلے مساجد کے سامنے خوب ڈی جے بجانا ، ہوا میں اسلحے لہرانا ، مستی میں ناچنا گانا ، اشتعال انگیز نعرے لگانا ، مساجد پر بھگوا جھنڈے لگانا ، پھر فساد برپا کرکے مسلمانوں پر ہی حملے کرنا۔ حملوں کے بعد انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے گھروں پر یہ کہہ کر بلڈوزر چلانا کہ پہلا پتھر تم نے ہی پھینکا تھا۔ تم نے ہی دنگا بھڑکانے کی پہل کی تھی۔ مسلمانوں پر دنگائی ہونے کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کرکے جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ وہی پرانا کھیل ہے جو اس سے پہلے ذرا الگ ڈھنگ سے یہودیوں کے ذریعے فلسطین میں کھیلا گیا تھا۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے کہا تھا کہ تم نے ہمارے پانی پر قصبہ کر لیا۔ ہمارے زیتون کے باغات جلا ڈالے۔ ہمارے گھروں کو مسمار کردیا۔ ہمارا روزگار چھین لیا۔ ہماری زمینیں غصب کرلیں۔ ہماری عبادت گاہیں مٹا ڈالیں۔ ہم پر عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ ہمارے والدین قید کردئے۔ ہمارے بھائی بہنوں کو مارڈالا گیا۔ ہماری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا گیا۔ ہمارے راستے میں فاقے بچھا دیے گیا۔ ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا گیا۔ اور مزید یہ الزام بھی کہ پہلے تم نے ہی ہماری جانب پتھر اور راکٹ پھینکا تھا۔ کیا بھارت میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی تاریخ دوہرائی جانے کی شروعات ہوچکی ہے ؟ کیا اس ملک میں برما والا فارمولہ اختیار کئے جانے کوشش کی جارہی ہے ؟ کیا اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ اسپین والا حال کرنے تیاری ہو رہی ہے ؟
جس قوم کے اکثر باشندے ابھی ایک سال قبل اپنے ماں باپ ، اہل وعیال ، عزیز و اقارب کی خاطر آکسیجن کے لیے در در جاکر بھیک مانگ رہے تھے اور جن کے لوگوں کی لاشیں سڑ گل کر ندی نالوں میں بہہ رہی تھیں۔ ان لاشوں کو درند و پرند نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ آج وہی لوگ چند معصوموں کی املاک کے ظالمانہ انہدام کا جشن منا رہے ہیں۔ انہیں خوشی اس بات پر ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کے گھر منہدم کئے جا رہے ہیں۔ ان کوگرفتار کرکے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔ انہیں مجرم بنایا جا رہا ہے۔ آخر ہمارے ملک میں یہ کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے ؟
ہمارے ملک میں بات ہونی چاہئے مہنگائی کی۔ بات ہونی چاہئے بے روزگاری کی۔ بات ہونی چاہئے ملک کی سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت کی۔ بات ہونی چاہئے عمدہ نظامِ تعلیم کی ، بات ہونی چاہئے غریبی اور فاقہ کشی کی ، بات ہونی چاہئے کسانوں کی پریشانیوں کی ، بات ہونی چاہئے بجلی اور پانی کی ، بات ہونی چاہئے ملک میں بہترین تجارتی نظام کی ، بات ہونی چاہئے اچھی سڑکیں بنائے جانے کی ، بات ہونی چاہئے بدعنوانی اور لاپرواہی کی ، بات ہونی چاہئے ملک کی گرتی معیشت کی ، بات ہونی چاہئے ملک میں ایکتا اور اکھنڈتا بنائے رکھنے کی ، بات ہونی چاہئے محبت اور بھائی چارے کی ، بات ہونی چاہئے ملک میں امن و امان قائم کرنے کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک بار کانگریس کے اجلاس میں کہا تھا کہ قطب مینار پر آکر اگر کوئی فرشتہ مجھ سے یہ کہے کہ آپ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرنا چھوڑ دو تمہارے ہندوستان کو آزادی کل ہی مل جائے گی۔ تو مولانا آزاد نے کہا تھا کہ میں آزادی کو ٹھکرا دوں گا مگر ہندو مسلم ایکتا کی بات کرنا بند نہیں کروں گا۔ لیکن آج ہندو مسلم کو لڑانے کی بات ہو رہی ہے۔ بات مندر و مسجد کی ہو رہی ہے۔ تاکہ اصل مدعوں سے لوگوں کو بھٹکایا جاتا رہے۔ اور کوئی حکومت سے سوال نہ کردے۔ کوئی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر چکا جام نہ ک
ردے۔ کہیں حکومت کے خلاف دھرنے اور مظاہرے نہ شروع ہوجائیں۔ لگتا ہے یہ سب ایک پلان اور سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ آج بھی ملک کا ٪80 فیصد ہندو امن چاہتا ہے۔ اخوت و بھائی چارگی چاہتا ہے۔ ملک میں امن و سکون کا خواہاں ہے۔ روزگار کا طلبگار ہے۔ ملک میں خوشحالی کے سپنے دیکھے جا رہے ہیں۔ جو چیزیں چاہی جا رہی ہیں انہیں نظر انداز کرکے بیکار کی چیزوں میں لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے۔ یہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مانع اور رکاوٹ ہیں۔ ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں۔ ملک کی فلاح و بہبود کے لئے مہلک ہیں۔اس طرح کے ماحول سے ملک کی معیشت و تجارت کی ترقی بالکل نہیں ہوسکتی۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ اس ملک کو فرقہ وارانہ منافرت سے پاک کریں گے۔ اپنی گلی اور محلوں میں ایکتا کا مظاہرہ کریں گے۔ تاکہ نفرت کے کاروباریوں کی دکانیں بند کی جا سکیں۔
نہ تیرا ہے نہ میرا ہے یہ ہندوستان سب کا ہے
نہیں سمجھی گئی یہ بات تو نقصان سب کا ہے