ازقلم: محمد ریحان ورنگلی
یہ بات ضیاۓ آفتاب اور شعاعِ مہتاب کی طرح ہر کس و ناکس پر واضح اور عیاں ہے کہ وقت حیاتِ انسانی کےلے قیمتی پونجی اور گراں قدر سرمایہ ہے درحقیقت وقت ایک بے بدل نعمت ہے، تمام عالم میں اس کا کوئی ثانی نہیں! امیر و غریب، قوی و ضعیف،عالم و جاہل، دانا و بیوقوف سب اسی کے عیال ہیں ، جو پگھلتے برف کی طرح آنا فانا گزرتا رہتا ہے نیز وقت ایک ایسی زمین ہے کہ اگر اس پر سعی کامل کی جاۓ تو یقینا پھل دار اور ثمرآور ہوتی ہے اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا جاۓ تو خاردار کانٹے اور جھاڑیاں اگاتی ہے، تاریخ میں ہمیشہ نامور قوموں نے وقت کی قدر کو اپنا نصب العین قرار دیا، خاص طور پر مسلمان قوم جو ایک درخشاں تاریخ رکھتی ہے، اور جس کے جاہ وجلال ، عظمت وسطوت کے پرچم صدیوں سربلند رہے ہیں ، وقت کی قدر ان کے مذہبی فرائض میں داخل ہیں ، اور قدردانی وقت ان کی تاریخی خصوصیت رہی ہے، وہ صدیوں تک دنیا پر چھائی رہی ، علم وحکمت کے میدان میں بڑھتی اور اقوام عالم کے سامنے ترقیوں کے منازل طے کرتی رہی ، ان کے علم و دانش کی درسگاہیں تو وقت کی اہمیت کی پابند تھیں ہی تاہم عیش فرواں اور وسعت حکومت رکھنے والے بادشاہوں کے درباروں میں بھی یہ سبق سکھایا جاتا تھا کہ جو کام فائدہ سے خالی ہو اس میں اپنا وقت ضائع نہ کیا جاۓ۔ چنانچہ خوش نصیبی کا تقاضا اور عقلمندی کا مطالبہ تو یہی ہے کہ وقت کا صحیح انظباط ہو ، کیوں کہ وقت مہلتِ عمل کا نام ہے ، اس کی مثال گہرے سمندر میں گرے ہوۓ ایک چھوٹی سی چیز کی طرح ہے کہ جس کا حصول ناممکنات میں سے ہے ، اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ وقت ہی زندگی ہے ، اور انسانی زندگی اصل پیدائش اور موت کے درمیاں غیر یقینی اور بے اندازہ وقفہ ہے ، اسی وجہ سے قرآن و سنت میں جابجا زندگی کی قدردانی کی تعلیم دی گئی اور وقت کی جانب توجہ دلائی، چنانچہ قرآن نے زمانے کی قسم کھاکر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ، نیز آپﷺ نے بڑے ہی لطیف پیراۓ میں یہ کہا کوئی دن ایسا نہیں جب وہ طلوع ہوتا مگر یہ کہ وہ پکار کر کہتا ہے کہ: اے انسان! میں ایک ناپید مخلوق ہوں ، میں تیرے عمل پر شاہد ہو، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہے تو کرلے ، اب میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا ۔
ایک روایت میں آپﷺ نے ضیاعِ وقت سے اجتناب کی تعلیم دیتے ہوۓ فرمایا من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ (مشکوة شریف : ٤/٧٧٧) وقت کے انضباط کے بارے میں علماۓ کرام، اکابرِ دین بڑے محتاط تھے، چنانچہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں : اضاعة الوقت اشد من الموت (الفوائد: ٤٥٨) نیز ابن الجوزی یوں گویاں ہے: وقت کی قدر ہی کی وجہ سے میری انگلیوں نے دو ہزار جلدیں لکھی ہیں (تذکرة الحفاظ: ١٣٤٦ ) نیز حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہے: کہ مجھے انضباط وقت کا بچپن ہی سے بہت زیادہ اہتمام تھا، جس کی بنا پر آپ نے ایک ہزار سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں مختصر یہ کہ الوقت اثمن من الذھب ان تمام باتوں کا خلاصہ خواجہ مجذوب نے اس شعر میں جمع کردیا
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا
جوانی نے پہر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پہر آکے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کردے گی بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے
ہم آج کل جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں علم وعمل کا جو حال ہے وہ اہل فہم سے ہوشیدہ نہیں، طلبہ و علماء آج درس و تدریس سے دور، وقت کی اہمیت کے احساس سے عاری، ذوق مطالعہ سے خالی اور قلم و قرطاس سے بیگانہ نظر آتے ہیں ہم قہوہ خانوں،سینماہالوں، نجی مجلسوں اور رقص و سرور کی محفلوں میں وقت ضائع کرتے ہیں، ہمارا کتنا ہی وقت نکتہ چینی ، غیبت، بہتان اور بےتحاشہ سونے میں ضائع ہوجاتا ہے ، اخلاق میں، علوم و فنوں میں ، ٹیکنالوجی میں، سائنس میں، معاشیات اور تسخیرات وایجادات میں ہم اقوام عالم سے پیچھے رہ گے ہیں، ہماری اس پستی و ادبار کی ایک بہت بڑی وجہ وقت کا ضیاع اور اس کا غلط استعمال ہے۔
وقت بچانے کے تین اہم اصول:
(١)نظام الاوقات:
اوقات کا یہ نظام بناتے ہوۓ کاموں کی تقدیم و تاخیر کی ترتیب میں وقت اور کام دونوں کی نوعیت اور کیفیت کو نظر رکھنا چاہے کہ کون سا عمل کس وقت زیادہ بہت طریقہ سے ادا ہوسکتا ہے اور کون سا وقت کس عمل کے لے زیادہ سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ جو کام زیادہ نشاط، طبیعت کی نازگی اور ذہن و دماغ کی توجہ کا تقاضا کرتا ہو، اس کی ادائیگی کے لے وقت کا انتخاب بھی ایسا ہونا چاہے ، جب انسان کی طبیعت میں نازگی اور نشاط ہو،
(٢) صحت: انسانی جسم کی صحت اللہﷻ کی عظیم بیش بہا نعمت ہے، ذہن و دماغ کی صحت اسی وقت برقرار رہتی ہے جب جسم صحت کی نعمت سے مالا مال ہو اور وقت کی رفتار سے بھر پور فائدہ زندگی کے صحت مند ہونے ہی کی صورت میں ممکن ہے۔اس لے وقت اور زندگی سے تعمیری کام لینے کےلے جسمانی صحت کی حفاظت اور اس کا خیال رکھنا ایک فطری اور ضروری امر ہے ۔
(٣) احتساب: کیا کھویا کیا پایا؟ کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان؟ اس کے پرکھنے کی کسوٹی احتساب کا عمل ہے، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی اسٹیج پر۔
خلاصہ یہ کہ وقت کو کام میں لانا ، اور فضول و لایعنی کاموں سے بچانا یہ ایک کامیاب انسان کی دلیل ہے
ہردرمند دل کو رونا میرا رلادے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگادے