بتاؤ تو اے ہواؤ آخر تمہارے دم کیوں نکل رہے ہیں
تمہاری اس سرکشی کی زد پر چراغ اپنے جو جل رہے ہیں
جناب ہی تو ہمارے شعروں میں لفظ بن بن کے ڈھل رہے ہیں
کہ شانِ نغمہ کبھی رہے
جناب ہی تو ہمارے شعروں میں لفظ بن بن کے ڈھل رہے ہیں
کہ شانِ نغمہ کبھی رہے اور کبھی تو جانِ غزل رہے ہیں
نواز کر اپنے قرب کی رت بچا لے مٹنے سے آ خدارا
ترے غمِ ہجر میں اے جاناں ہم اندر اندر ہی گل رہے ہیں
میں زندگی کے اٹوٹ رشتے میں باندھنا چاہتا ہوں ان کو
مگر وہ لمحہ بہ لمحہ مٹھی کی ریت جیسے پھسل رہے ہیں
یہ آسماں،چاند،تارے،سورج پکڑ میں آ ہی نہیں سکیں گے
جب آپ یہ جانتے ہیں بھائی تو اس قدر کیوں اچھل رہے ہیں
سوا تمہارے جچا نہ کوئی اگر چہ میری نظر میں کتنے
بدن بدن جوہی چمپا بیلا تو چہرہ چہرہ کنول رہے ہیں
خدا نے تم کو عطا کیا ہے اے جاناں حسن و شباب ایسا
کہ میں ہی تنہا نہیں سبھی تم کو دیکھ کر ہاتھ مل رہے ہیں
خدائے قادر کی قدرتوں کی کرشمہ سازی پہ جان قرباں بجائے برف آج ہم نے دیکھا کہ سخت پتھر پگھل رہے ہیں
تمہاری دنیا نئی نئی ہے سناؤ تم سب کہانی اپنی
ہیں آج بھی حال اپنے ویسے اے دوستو جیسے کل رہے ہیں
تقدسِ حسن کے جلالِ شکوہ آراء کے ڈر کے مارے
وہ پاس تو بارہا ہیں آئے مگر مرے ہاتھ شل رہے ہیں
ضرور اس کے بھی پاس کوئی بہت ہی پختہ دلیل ہوگی
نہیں تو کیا یونہی اس کے دعوے "ذکی” بہ بانگِ دہل رہے ہیں
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی