غزل: وقت لگتا ہے زخم بھرنے میں

کچھ بھروسہ ہے ؟جینےمرنےمیں
عافیت ہے جی کہہ گزرنے میں

زخم دے کر وہ گیا رخصت
ہم رہے صرف آہ بھرنے میں

ایک مدت لگی ہے اے جاناں
آپ سے رسم و راہ کرنے میں

مندمل جلد یوں نہیں ہوتا
وقت لگتا ہے زخم بھرنے میں

ان کا وعدہ تھا ساتھ رہنے کا
عمر بھر دردوغم کو سہنے میں

اتنی جلدی سکوں نہیں ملتا
وقت لگتا ہے زخم بھرنے میں

لوگ کہتے ہیں فرق ہوتا ہے
بات کہنے میں اور کرنے میں

اے معظم لگا ہے دل ان سے
ہے مہارت جنہیں مکرنے میں

خیال و فکر
معظم ارزاں شاہی دوست پوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے