غزل: ان کی عادت ہے جو وعدے سے مکر جاتے ہیں

دور کچھ چل کے جوافراد ٹھہر جاتے ہیں
درحقیقت وہ مقدّر سے ہی ڈر جاتے ہیں

اس قدر خوف ہمارے ہے دلوں پرطاری
”اب تو ہم اپنی ہی پرچھائیں سے ڈر جاتے ہیں“

تجربہ ہوتا نہیں ہم کو بلا زک کھاۓ
حادثے آتے ہیں ہم پہ تو سنور جاتے ہیں

جن کو حاصل تھا بلاموڑ کے سیدھا رستہ
ہوکے گمرہ وہی پر پیچ ڈگر جاتے ہیں

ذات پر اپنی جنھیں ہوتا ہے کامل وشواس
پرخطر راہوں سے بےخوف گزر جاتے ہیں

عشق کی راہوں میں ہرگام ملا ہے دھوکہ
پھربھی،حیرت ہے، کہ عشاق اُدھر جاتے ہیں

صبر کے وصف سے ملتا نہیں جن کو حصہ
پڑتی ہے ان پہ مصیبت تو بکھر جاتے ہیں

راستے میں وہ سیاست کے ہیں الجھے عاجز
ان کی عادت ہے جو وعدے سے مکر جاتے ہیں

سیدعزیزالرحمٰن عاجز