تحریر: مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیض آبادی
نعت در حقیقت ایک باعظمت اور مقدس سخن ہے اس صنف کی طرف ہر وہ شاعر و سخن ور متوجہ ہوا جس کے اندر تخلیق شعر کا قدرے بہی مادہ موجود تھا چونکہ یہ صنف ادب سے زیادہ ایمان و عقیدے سے تعلق رکہتی ہے اس لئے ہر شاعر وسخن ور نے نعت کے اشعار کہنا اپنے ایمان کا فریضہ اور محبت رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تقاضا سمجھا اور اپنی اپنی سکت بہر نعت گوئی کے عمل خیر میں مصروف رھا ۔ان نعت گو شعراء کرام کی جماعت میں صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اپنے عہد کے جید علمائے کرام صوفیائے عظام بزرگان دین مسلمانان عالم اسلام اور غیر مسلم نعت گو شعراء بھی ہیں جسے اپنی زبان میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کے اس راہ کے مسافر یا راہ روعوام وخواص دونوں طبقے کے لوگ ہوں تو دونوں کی روش میں نمایاں فرق ہونا یقینی ہے یہی وجہ رہی ہے کہ اس صنف سخن میں معیاری اور غیر معیاری دونوں طرح کے کلام پاےجاتے ہیں میں اس مقام پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ صرف صنف نعت ہی میں معیاری اور غیر معیاری کلام نہیں پاےجاتے ہیں بلکہ دیگر اصناف ادب کا بھی یہی حال ہے نعت کے اشعار کہہ کر نعت گو نے تو اپنا حق ایمانی اور محبت رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تقاضا تو پورا کر دیا مگر اس صنف کے ساتھ ستم یہ ہوا کہ غیر معیاری نعتیہ کلام کی وجہ سے اس کا پورا سرمایہ اہل علم و ادب یاناقدین ادب کی فکری توجہ سے محروم رھا ۔جبکہ دیگر اصناف میں چاھے جتنا غیر معیاری کلام کیوں نہ ہو کہ اس کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لے کر اہل فکر و دانش کو اس کی طرف متوجہ ضرور کرتے ہیں صنف نعت کی تنقید کی طرف ناقدین ادب کے متوجہ نہ ہونے کی وجہ یہ بھی رھی کہ اس صنف میں فن سے زیادہ معانی و مفاھیم کا تعین قرآن و احادیث کریمہ سیرت النبی خصائص و فضائل رسول اللہ سے کرنا ہوتا ہے اس لئے کی اگر کسی شعر کے معانی و مفاھیم صحیح طور پر قرآن مجید و حدیث رسول یا سیرت النبی سے متعین نہ ہو سکے تو پھر علمائے کرام کا قلم ان کا محاسبہ و محاکمہ فرمائے گا ۔جو خود ان کی اپنی علمی شوکت کے شایان شان تھیں غیر معیاری نعتیہ کلام در آنے کی وجہ یہ رھی کی ہر آدمی قرآن وحديث کا جید عالم نہیں ہو سکتا اور جب قرآن مجید اور حدیث طیبہ پر گرفت مضبوط نہیں ہوگی تو یقینا انداز گفتگو انداز تدبر میں فرق ہوگا بالکل یہی فرق نعت گو شعراء کرام کے کلام میں پایا جاتا ھے جو نعت گو شعراء کرام قرآن مجید و حدیث رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں درک رکھتے ہیں تو ان شعراء کرام کا کلام تو معیاری اور فصیح و بلیغ ہوتا ہے لیکن جو نعت گو شعراء کرام جو قرآن کریم اور حدیث طیبہ کا راسخ علم نہیں رکھتے ہیں تو ان کے کلام میں کہیں نہ کہیں جھول ضرور آجاتا ہے اس بات کو رقم الحروف ایک مثال سے واضح کرنا چاہتا ہے کہ ایک ہی موضوع سے متعلق دو نعت گو شعراء نے ایک ایک شعر موضوع کیے اور دونوں عالم دین بھی ہیں مگر دونوں کے تدبر اور شعر گوئی میں بہت فرق ھے استاذ الشعراء علامہ غلام محمد ترنم نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں
اب دل میں ترنم یادنبی کے جلوے ۔
غم اپنی زندگی کے ھم نے بھلا دیے ہیں اور حسان الہند حضور سیدی اعلی حضرت رحمة الله عليه فرماتے ہیں
ان کی مھک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں ۔
جس راہ چل دیئے ہیں کوچے بسادیے ھیں۔
ان دونوں اشعار کا جب ھم تو گھرائی و گیرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو دونوں نعت گو شعراء کرام کے شعر کا ماحصل "غم سے نجات ” نظر آتا ھے مگر دونوں حضرات نے غم سے نجات کے الگ الگ طریقے بیان فرماے ہیں ۔استاذ الشعراء علامہ غلام محمد ترنم نور اللہ مرقدہ غم سے نجات نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یاد کے جلوے لیے ہیں اور حسان الہند حضور سیدی اعلی حضرت رحمة الله عليه غم سے یاد نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوشبو سے فرمایا خوشبو اور جلوہ دو الگ الگ ہے یقینا خوشبو سے آدمی ایک لمحے کے لیے تازہ دم اور مفرح محسوس کرنے لگتا ہے خوشبو سے توغم غلط کرنے کی بات کم سمجھ میں آتی ہےجب نعت گوئی کے میدان میں علمائے کرام کی فکر میں تفاوت ہو سکتا ہے تو جو حضرات قرآن مجید و حدیث رسول یا سیرت النبی خصائص و فضائل رسول اللہ سے ناواقف ہیں یا ان کا علم محدود و سطحی ہے تو ان کی فکر ان کے تدبر میں کتنا فرق ہوگا اگر چہ مذکورہ اشعار فنی و ادبی اعتبار سے کوئی سقم نہیں ہے مگر فکری اعتبار سے تو ہے ھی میں نے اس تمہید کو محض اس اعتبار سے تحریر کیا ہے کہ حضرت علامہ قسمت سکندرپوری فی زمانانہ جید عالم دین کے ساتھ ساتھ اردو کے بہت ہی مشھور و معروف اور لائق و فائق شاعر و ادیب ہیں جدید لب ولہجہ جناب قسمت سکندرپوری کی نعتیہ شاعری کا امتیازی نشان ہیں یا قسمت سکندرپوری صاحب نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن نعتیں اور منقبتیں علامہ قسمت صاحب کی محبوب ترین صنفیں ہیں علامہ قسمت سکندرپوری اپنے لہجے سے صاف پہنچانے جاتے ہیں اور اس عمر میں یہ بھت بڑا اعزاز ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم کی بارگاہ رسالت پناہ ہو یا بارگاہ خدا عزوجل کا حشم ہر منظر ان کے شعر میں واقعاتی اور دیدنی رنگ کے ساتھ نظر آتا ہے ان کی حمد باری تعالٰی ہو یا نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دونوں جلال ورحمت کے عجیب عجیب رنگوں سے ہمیں آشنا کرتی ہیں جدید شعراء ہندوستان کے کلام کے ساتھ اگر علامہ قسمت سکندرپوری کو شامل کرکےمطالعہ میں لایا جائے تو یہ بات چھپی نہیں رہے گی کہ وہ ان کے ساتھ ہمسفر ہیں علامہ قسمت سکندرپوری کے یہاں تازگی اور اچھوتا پن ایسا ہے جو آپ کے اعتراف و نواح کم شاعروں کے حصے میں آیا ۔قسمت صاحب ہمارے شھر میں جدید فکر کاجیسا عمیق مطالعہ کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال ان کے ہم عمروں اور ہم عصروں میں نظر نہیں آتی۔انہوں نے انتہائی محنت سے تنقید شاعری اور جدید نثر کا مطالعہ کیا ہے جناب قسمت صاحب کا نام نعتیہ شاعری کی دنیا میں نہایت ہی اہم اور معتبر متصور ہوتا ہے کسی شاعر و ادیب اور سخن ور کی عظمتوں کا اعتراف جب اساطین ادب اور اکابرین فن کرنے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شاعر وہ ادیب اور وہ فنکار وہ سخن ور فضل وکمال اور عروج و ارتقاء کی جس منزل پر فائز ہے وہاں پہنچنا ہر ایک کا نصیب اور مقدر نہیں علامہ قسمت صاحب ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں علامہ قسمت سکندرپوری نے پہلے اپنے آپ کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھال لیا ہے خود کو صوم صلاة کا پابند بنایا ہے اس کے بعد وہ نعت گوئی کی طرف مائل ہوے ہیں اسی لئے ان کے اشعار میں تقدس طہارت عقیدت و محبت کی گرمی محسوس کی جاتی ہے ان کے اشعار گنجینہ معنی کا طلسم ہیں جو قصر معنی کا قفل فورا کھول دیتے ہیں قسمت صاحب ان پر خدا عزوجل کی خاص مہربانی ہمارے مشاہدہ میں بار بار آتی رہتی ہے کہ وہ سکندر پور میں بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے اشعار ہندوستان بھر کے مشاعروں میں پڑھے جاتے ہیں کبھی ان کے شاگردوں کی خوبصورت اور دلکش آواز میں اور کبھی ان کے شیدائیوں کی زبانی۔
محترم قسمت سکندرپوری صاحب نے محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے میٹھے شھر مدینہ منورہ سے جذباتی وسعت دی ہے اسے حرف نعتیہ شاعری کے عام موضوع کی حیثیت سے نہیں اپنایا ۔قسمت صاحب کا شاعرانہ کمال دیکھے کہ وہ بات تو اپنی آنکھوں کی کرتے ہیں مگر توصیف محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کتنے چمکتے ستارے اشعار میں ٹانک دیتے ہیں
فرشِ زمیں کو عرشِ معلّٰی بنا کے لا
روئے نبی سے خانۂ دل جگمگا کے لا
دانش کدہ بنے گی تری درسگاہ پھر
علم و عمل کے فلسفے غارِ حرا کے لا
طغریٰ اگر ہو گنبدِ خضریٰ کا دستیاب
بازار گرم دیکھ تو بولی لگا کے لا
لانا ہے گر بطور ِ تبرُّک تو اے ہوا
خاک ِ درِحضور نظر میں بسا کے لا
پھر انتہاء پہ گفتگو کر لینا بعد میں
پہلے تو کچھ ثبوت ذرا ابتداء کے لا
رحمت کی بوند بوند کھلانے پہ ہے تُلی
اپنی ہتھیلیوں میں توغنچے دعا کے لا
منظرکشی بہشت کی کرنےسے پیشتر
فکر و نظر کو شہرِ مدینہ گُھما کے لا
بھیجا گیا ہے اس لئے دنیا میں آدمی
جا اپنےدل کوعشق نبی میں گُما کے لا
کرمشک اورگلاب سےپہلےدہن کوصاف
پھر بعد میں زبان پہ جملے ثنا کے لا
اےکاش بزم ِنعت سجی ہوکہیں حضور
قسمت توجاکے میرےرضا کو بلا کے لا
علامہ قسمت سکندرپوری کے ندرت کلام پاکیزہ قلبی کیفیت حسی تجربے اور منفرد اسلوب کو بروئے کار لانا کہ ان میں قدرتی رانیوں کی عکاسی بھی ہے اور شھر مدینہ منورہ سے عقیدت محبت کا اعتراف بھی ۔کائنات کی ہر شے حضور پر نور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ذات اقدس کے سامنے بے مایہ اور کم عیار ہے اس لئے اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ آفاق عالم میں موجود اشیاء ومناظر کے تناظر میں جو بات کی جائے اس میں ہمہ وقت حد ادب ملحوظ رکھنا چاہیے ۔اور یھی تلوار کی دھار کا سفر ہے قارئین کرام یہ اشعار نظر نواز فرمائیں جس میں علامہ قسمت سکندرپوری صاحب کی فکر ضوفشاں نے کیا کیا پھول کھلاے ہیں ۔
کبھی طہ کبھی یس کھا ہے میں نے ۔
رب کے محبوب کو کل دین کھاہے میں نے ۔
ہر صغیرہ کو کبیرہ سے بچانے کیلئے ۔
چھوٹے جرموں کو بھی سنگین کھا ہے میں نے ۔
اس حقیقت کو عقیدت سے نہ کیجئے تعبیر ۔
اب زم زم کو حیاتین کھا ھے میں نے ۔
علامہ قسمت سکندرپوری
صاحب نعت کہنے میں احتیاط کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رھتے ہیں جوش عقیدت میں سرشار ہونے کے بعد بھی ہوش کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے اور ان کا لہجہ نھایت سنجیدہ اور پر کیف ہوتا ہے یھی وجہ ہے علامہ قسمت صاحب کے اشعار آجکل ہندوستان کے نعتیہ مشاعروں اور ادبی حلقوں میں بھت زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔علامہ قسمت صاحب الفاظ ومعانی کی خوبصورتی کے بھترین شناسا ہیں ۔مدحت سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سجانے کے فن سے خوب اچھی طرح واقف ہیں ۔ان کے سامنے مترادفات کے عنبار کا گلشن
سجا ہوتا ہے مگر ان کی خصوصیات میں سے ہے آپ اس لفظ کو بروئے کار لاتے ہیں ۔جو موقع ومضمون کے لحاظ سے موضوع ترین ہوتا ہے ۔
علامہ قسمت صاحب کی شاعری میں دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ فن اور عروض سے پوری واقفیت رکھتے ہیں ۔اور اس کا پھر پورا استعمال مدحت سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں کرتے ہیں ۔وہ مشکل زمینوں میں اتنی آسانی اور خوش اسلوبی سے اشعار نکالتے ہیں قارئین محبت کا تمغہ پیش کئے بغیر اس سکون نہیں ملتا ھے اہل عقیدت ومحبت کے لئے علامہ قسمت صاحب قبلہ کا ایک تازہ ترین کلام پیش خدمت ھے۔
سرکار کے عادات و اطوار مہکتے ہیں
اس واسطے نعتوں کے اشعار مہکتے ہیں
آقا کے پسینے کا رہتا ہے اثر صدیوں
پھولوں سے تو اک دو دن گھربار مہکتےہیں
یہ حسن ِ تعلق بھی کیا حسنِ تعلق ہے
گلہائے مہاجر سے انصار مہکتے ہیں
ان کے رخِ روشن کا یہ فیض ِ مسلسل ہے
گلشن میں جو پھولوں کےرخسارمہکتےہیں
خوشبو میں نہاتے ہیں کعبے کے بھی بام ودر
جب آپ کے گیسوئے خمدار مہکتے ہیں
ہرگھونٹ میں پوشیدہ خوشبوئے طہارت سے
میخانۂ طیبہ کے میخوار مہکتے ہیں
اک دو کی یہاں کوئی تخصیص نہیں قسمت
گلزار ِ مدینہ کے سب خار مہکتے ہیں
علامہ قسمت سکندرپوری صاحب جس خلوص وفا اور عشق سرکار کے ساتھ نعت نگاری میں مصروف ہیں اسے دیکھ کر یہ کھنا حق بجانب ہوگا کہ انھیں ابھی مزید اور جھانوں کی تلاش ہے آپ ہزاروں شعراء کرام کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی بھی فخر محسوس نہیں کیا ۔اپ ہمیشہ فرماتے ہیں ابہی منزل قبول نہیں کہ اور آپ کا سفر وادی عقیدت محبت میں بڑی شان وعظمت کے ساتھ جاری وساری ہے ۔
علامہ قسمت صاحب کی نعتیہ شاعری بھت ہی زیادہ علماء کرام اور شعراء کرام کے درمیان میں مقبول ہوئی ہے ۔امید ہے کہ علامہ قسمت صاحب قبلہ کا نعتیہ دیوان جلد ہی منظر عام پر آئے ۔اور اور اپنی سنجیدگی اور شگفتگی فکر سے ماحول کو سر سبز شاداب کرے گا انشاءاللہ ۔اہل فن سے رقم الحروف ملتمس ہے کہ وہ محبتوں کا تحفہ علامہ قسمت سکندرپوری صاحب قبلہ کو پیش فرمائیں ۔اور دعا کریں اللہ تعالٰی اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مدحت کے صدقے میں علامہ قسمت صاحب کو حاسدین کے حسد سے محفوظ فرمائے اور مدحت مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی برکت سے روضہ رسول کی حاضری بخشے اور عمر طویل عطاء فرمائے آمین یا رب العالمین