نصیر احمد عادلؔ: شخص اور شاعر

ازقلم: ڈاکٹر جاوید اختر، دربھنگہ، بہار
+91 8076062243

صوبہ بہار کا معروف خطہ متھلانچل عرصہ دراز سے ہی علم و ادب کی سرزمین کے طور پر مشہورہے۔یہ خطّہ تہذیب و ثقافت ،کھان پان اور پہناوے کے اعتبار سے اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔اس تہذیبی و ثقافتی خطّے کا دربھنگہ ضلع علم و ادب کے لحاظ سے زرخیز ہے کہ یہاں کئی زبانوں میں ایک طویل عرصے سے ادب خلق کیا جاتارہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ دربھنگہ ضلع میں کمتول سے متصل ’کمہرولی‘ بستی آباد ہے ۔ اس معروف بستی میں کئی ایسی نامی گرامی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے مختلف شعبئہ حیات میں نہ صرف اس بستی کا بلکہ علاقے کا نام روشن کیا ہے ۔ ان معروف شخصیات میں خصوصی طور پر مولانا قمر علی مرحوم (عالم دین)، عالم کمہرولوی (شاعر)، ماسٹر محمد ذاکر مرحوم، ماسٹر ابو صالح مرحوم، ماسٹر نواب حسن مرحوم، مرحوم حسنین سید صاحب، ڈاکٹر نجیب اختر (ماہر تعلیم و سکریٹری فخرالدین علی احمد ٹیچرس ٹریننگ کالج، دربھنگہ)، ڈاکٹر جمیل اختر(ناقد) مرتب: اشاریہ آجکل اردو ماہنامہ)، پروفیسر راشد شاز، استاد شعبہ انگریزی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، (مصنف: لایموت)، ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی(مشہور معالج و شاعر)، جناب منہاج الرحمٰن(سی ای او ، یوٹی آئی ،ممبئی) وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اہم کارکنان حسنین سید مرحوم، ماسٹر ذاکر مرحوم اور ماسٹر نواب حسن جیسے اکابرین کا آبائی تعلق اس بستی سے رہا ہے جن کی تعلیمی میدان میں جد و جہد بہت اہم ہے کہ ان حضرات نے درس گاہ اسلامی جیسا ادارہ قائم کیا جہاں سے فارغین فیضیاب ہوکر پورے عالم میں کامیابی کا پرچم لہرا رہے ہیں ۔
دور ِ حاضر میں بھی یہاں کے باذوق افراد کسب ِ ادب میں سرگرداں ہیں۔ڈاکٹر نصیر احمدعادلؔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں جن کی پیدائش ۲۱؍ جنوری ۱۹۶۲ ء؁ کوکمہرولی میںہوئی۔ ان کے والد مولوی محمد ظفیرالحسن پیشے سے ایک معلّم تھے ۔نصیر احمد پانچ بھائی بہنوںمیں سب سے چھوٹے ہیں ۔ان کے بڑے بھائی ماسٹر نظیر احمد جماعت اسلامی میں ایک فعال و متحرک رکن ہیں اور تنظیم کی ریاستی اور حلقہ جاتی ذمہ داریوں کو بھی بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
نصیر احمد عادلؔ نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں ہی حاصل کی ۔ ۱۹۸۰ء؁ میں میٹرک کا امتحان دربھنگہ کے مشہور و معروف تاریخی ادارہ شفیع مسلم ہائی اسکول سے پاس کیا ۔ انٹرمیڈیٹ تا ایم ۔اے(اردو) مع بی ۔ایڈ۔ تک کی تعلیم للت نارائن متھلا یونیورسٹی (دربھنگہ) سے مکمل کی ۔ انھوں نے اردو ادب میںپی ایچ ڈی کی ڈگری بھی للت نارائن متھلا یونیورسٹی سے ہی حاصل کی ۔موصوف نے اپنا مقالہ ڈاکٹر مظفر مہدی کی نگرانی میں ۱۹۹۸ء؁ میں بہ عنوان ’’ مولانہ حالی بہ حیثیت نا قدو سوانح نگار ‘‘ تحریر کر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر نصیر احمد عادلؔ طالب علمی کے دورسے ہی پڑھنے پڑھانے سے دلچسپی لینے لگے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس کے پیشے سے باضابطہ طور پر وابستہ ہوگئے ۔ انہوں نے درس و تدریس کا آغاز موضع کمہرولی میں قائم ایک ادارہ ’درس گاہ اسلامی ‘سے کیا ۔ تقریباً ۱۷؍ برسوں تک وہ اسی ادارہ سے منسلک رہے اور اپنی تدریسی خدمات انجام دیں ۔سال ۲۰۱۲ء میں انھوںنے ایک سرکاری مڈل اسکول جوائن کیا اور جنوری ۲۰۲۲ء میں سبکدوش ہوئے۔ مذکورہ اسکول میں انھوں نے ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داری بھی پوری تندہی سے انجام دی اور اپنی علمی اور تنظیمی صلاحیت نیز تجربے کابھرپور استعمال کیا۔
ڈاکٹر نصیر احمد کو ملی تنظیم ’جماعت اسلامی ہند ‘ کی رکنیت کا شرف بھی حاصل ہے ۔تحریکی اور تنظیمی کاموں میں بھی وہ اپنا وقت صرف کرتے رہے ہیں اور ان کی منظّم شخصیت پر بہت حد تک جماعت اسلامی کی فکر کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ موصوف مرکزی جماعت اسلامی (ہند)کے ذیلی شعبہ ’’ادارہ ادب اسلامی ‘‘ کے دربھنگہ یونٹ کے سکریٹری کی ذمہ داری نبھارہے ہیںجہاں وہ ہر ماہ کے آخری اتوار کو ماہانہ ادبی نشست کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے ہیں ۔ حال ہی میںڈاکٹر عادلؔ کی سربراہی میں’مہیلا اودیوگک پرشکشن سنستھان ، مظفر پور‘ نے ’’اردو فکشن کا ایک نیا باب: مشرف عالم ذوقیؔ‘‘ کے موضوع پر یک روزہ ریاستی سمینارمنعقد کیا تھا۔ ۲۲؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو منعقد ہوئے اس سمینا رکو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا مالی تعاون حاصل تھا ۔
نصیر احمد بنیادی طور پر ایک شاعربھی ہیں ۔نہوں نے حمد ، نعت ، غزلیں ، نظمیں اور قطعات میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے کلام ملک کے متعدد رسالوں اور روزناموں میں تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ان میں کتاب نما (دہلی ) ، ماہنامہ پیش رفت (دہلی) ، جہان اردو ( دربھنگہ ) ، ماہنامہ زبان و ادب ( پٹنہ ) ، حجاب اسلامی ( دہلی ) ، رفیق منزل ( دہلی ) ، سہ روزہ ـ’دعوت ‘ ، روزنامہ انقلاب ، روزنامہ کشمیر عظمیٰ ، روزنامہ نیا نظریہ ، قومی تنظیم اور فاروقی تنظیم وغیرہ اہم ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کا کلام مجلہ جشن زریں ۔ 2008 ( ملت کالج ، دربھنگہ ) ، مجلہ شفیع مسلم ہائی اسکول (2007) لہیریا سرائے دربھنگہ ، سالانہ میگزین برائے طالبات اندرا گاندھی ہال، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علیگڑھ (2014-15) وغیرہ میں شائع ہو چکا ہے ۔ ماہنامہ مجلہ ’حیات نو ‘ بلریاگنج (اعظم گڑھ ) اور ماہنامہ ’باجی ‘ (دہلی ) میں بھی ان کی تخلیقات شائع ہو چکی ہیں ۔ قابل ذکر ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال اؒور ان کی شاعری میں انھیں خصوصی دلچسپی ہے۔
ڈاکٹر نصیر احمد عادل ؔ زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و شعری میں دلچسپی لینے لگے تھے ۔ ان کی پہلی نظم بہ عنوان ’’مسلم جوان ‘‘ شائع ہوئی تو ان کا حوصلہ بلند ہوا اور پھر متواتر لکھنے لگے۔، انہوں نے اسلامی م احول پایا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں جا بجا اخلاق و موعظت کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ لہذٰا ابتدا میںانھوں نے صرف حمد ، نعت اور منقبت ہی لکھے ۔ لیکن بعد میں غزل اور نظم سے بھی انھیں طبعی میلان پیدا ہو گیا۔
نصیر احمد عادل ؔ شاعری میں اپنی دلچسپی کے تعلق سے فرماتے ہیں :ــــ-
’’ گریجوئشن میں اردو پیپر بہ حیثیت آنرس رکھا تھا ۔ عروض و بلاغت کے استاد نے ایسے پڑھایا
کہ شاعری کا رجحان وہیں سے پیدا ہوا اور ذہن موزوں ہونے لگا ۔ چونکہ طلبہ تنظیم (SIO)
سے وابستگی تھی اس لئے کلاسکی / اسلامی شاعری کی طرف اپنا میلان ہو گیا ۔ ‘‘ (ایک انٹرویو )
ڈاکٹر نصیر احمد عادلؔ نے باظابطہ کسی استاد سے اصلاح نہیں لی بلکہ اپنی محنت اور لگن و ذوقِ سلیم کی وجہ سے شاعری کے اوزان و اوقاف سے واقف ہوتے چلے گئے ۔ڈاکٹر نصیر احمد عادلؔ کی بیشتر شعری تخلیقات کسی رسالے یا اخبار میں شائع ہو چکی ہیں ۔ وہ اپنی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تخلیقات کو عدیم الفرصتی کی وجہ سے یکجا نہیں کر پائے ہیں۔ ان شعری تخلیقات میں حمد ، نعت ، منقبت ، غزل ، نظم ، قطعہ اور رباعیاں شامل ہیں ۔ ان کا شعری مجموعہ زیر ترتیب ہے ۔
نصیر احمد عادلؔ کی شاعری میں کلاسیکیت کی رعنائی اور اور جدیدیت کارمز غالب ہے ۔ چند اشعار آپ قارئین ملاحظہ کریں:

۱۔ ؎ میں نے حق تھا کہا ، تونے کی سر زنی
آگ جو تھی لگی وہ لگی رہ گئی
۲۔ ؎ ہم خلیج بد گمانی پاٹ دیں
بیچ میں میرے تیرے دیوار ہے
۳۔ ؎ غوطہ خوری ہو گیا شیوہ میرا
تم سمندر در سمندر سو گئے
۴۔ ؎ کون سدھ اور میری خبر لیتا
میں گنہ اس کا گر نہ سر لیتا
۵۔ ؎ ساری عالم پہ چھا گیا ہوتا
اس کو اپنا اگر میں کر لیتا

ڈاکٹر نصیر احمد عادلؔ چھوٹی و بڑی دونوں بحروں میں خوب تجربے کئے ہیں ۔ ڈاکٹر نصیر احمد کی غزلوں کے اشعار میں نہ صرف تشبیہ و استعارہ کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے بلکہ جا بہ جا تلمیحات کا بھی استعمال ہوا ہے ۔ بعض جگہ انہوں نے اپنی شاعری میں فارسی لفظ کا بھی استعمال بہ خوبی کیا ہے ۔ ان کے کلام میں ایک چاشنی پائی جاتی ہے ۔ ایک غزل کا مطلع اور دو شعر ملاحضہ فرمائیں : ؎

ٹوٹ کر کتنا گرا ہے آئینہ ملبے میں ہے
کتنی جانیں اور کتنا گھر جلا ملبے میں ہے
کتنے معصوموں کی چیخیں کتنی خوشیاں ہیں نہاں
کتنے ارمانوں کا خوں ہے ہو گیا ملبے میں ہے
لو تجاہل عارفانہ سے نہ ہرگز کام تم
انسانیت کے قتل کا سارا پتہ ملبے میں ہے

ڈاکٹر نصیر احمد عادلؔ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ حال ہی میں انہوں نے ’شاہین باغ ‘ ، لاک ڈائون ، اور ’کرونا ‘ جیسی وبا پر بھی نظمیں کہی ہیں ۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر نصیر احمد عادل ؔ کا ادبی سفر طویل نہیں ہے مگر ان سے مزید امیدیں وابستہ ہیں ۔ ان کی ایک غزل پر اپنے قلم کو آرام دینا چاہوں گا ۔

غزل

جو نہ آئی تھی وہ بلا آئی
کیسی اس شہر میں وبا آئی
ہو گئے منفرد ہیں جب سے ہم
سر پہ اپنے ہر اک بلا آئی
سر پہ اس کے بھلا ردا دے کون ؟
جس کو خود ہی نہیں حیا آئی
قبر کھودے گورکن پھر اک
جانے کس کی ہے پھر قضا آئی
پھول سارے ہوئے ہیں پثر مردہ
جانے کیسی ہے یہ ہوا آئی
ہم کو جس نے بھلا دیا دل سے
یاد اس کی ہی بار ہا آئی
نام اس کا ہی ساتھ تھا عادلؔ
لب پہ جب بھی مرے دعا آئی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے