خود شناسی

زین العابدین ندوی 
مقیم حال نیرل۔ مہاراشٹر 
اللہ کی نعمتیں بے شمار اور انگنت ہیں جس کا شکر ہم پر واجب اور ادائی حق ہمارا فرض ہے جو حقیقتاً تخلیق انسانی کا مقصد ہے ، اس باب میں افراط و تفریط اور ترک اعتدال ہی تمام تر خرابیوں اور خامیوں کا پیش خیمہ ہے، نعمتوں کی معرفت اور اس کی قدردانی خود ایک بڑا انعام ہے، جس کا حصول سعادت مندی، کامیابی و کامرانی کی روشن دلیل ہے، آج کے پڑھے لکھے جاہلی دور میں مادہ اور عارضی عیش و آرام کے عوض ضمیر کا سودا کرنا ایک عام چلن بن چکا ہے، تقریباً یہی وہ دور ہے جس وقت ایمان پر استقامت ہاتھ میں انگارے لینے جیسا ہوگا، اور لوگ اپنا ایمان اونے پونے دام میں فروخت کریں گے۔ 
خود شناسی وہ جوہر ہے جس کی بدولت انسان خدا شناس ہوتا ہے اور ضمیر کا سودا کرنے سے کوسوں دور رہتے ہوئے دوسروں کا بھی خیر خواہ واقع ہوتا ہے، اور انسانی زندگی میں ایک نئی روح، نیا جوش و ولولہ اور نئی امنگ وآرزو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، جس سے انسانیت کی کھیتی لہلہا اٹھتی ہے اور سطحی بے بنیاد افکار پر بنے ہوئے قصور و محلات اور بودی پھسپھسی مادیت پر تنے ہوئے شامیانے زمین بوس ہو جاتے ہیں، اور انسان کے اندر حق پرستی، دیانت داری اور انصاف پسندی کا پاکیزہ عنصر پنپتا ہے، جس کی باطنی کیفیت کے سبب بھاری بھرکم طاقتیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں، خود شناس انسان ظاہری دیدوں کے ساتھ باطنی اور غير مرئی قوتوں کا حامل ہوتا ہے جس کےلئے کسی خانقاہ جانے کے بجائے دل کی دنیا میں اترنا پڑتا ہے اور علامہ اقبال کے بیان کئے ہوئے مبنی بر حقیقت فلسفہ
           تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا 
             خودی کا رازداں ہوجا، خدا کا ترجماں ہو جا 
پرعمل پیرا ہونا پڑتا ہے، اور یہ نعمت غور وفکر، طلب صادق، جہد مسلسل اور عمل پیہم کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، خود شناس انسان کی علامت یہ ہے کہ وہ حق بیانی میں کبھی بھی مصلحت کی بیجا چادر نہیں اوڑھتا، جھوٹ، مکر وفریب اور ریاکاری سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، ذاتی مفاد کی خاطر قوم کے مفاد کا قتل نہیں کرتا، اس کی زندگی احترام انسانیت اور عزت نفس سے عبارت ہوتی ہے، اور ہاں اس کا کوئی خاص لباس اور مخصوص حلیہ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ ہمیں خود شناسی کے جوہر سے مالا مال فرمائے۔ آمین یا رب۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے