شرعی نقطہ نظر سے سورج گہن کیا ہے؟

سورج اور چاند گہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، زمین کا وہ سایہ جو زمین کی گردش کے باعث کرہ زمین کے چاند اور سورج کے درمیان آجانے سے چاند کی سطح پر پڑتا ہے اور چاند تاریک نظر آنے لگتا ہے۔ چاند گرہن کبھی جزوی ہوتا ہے اور کبھی پورا۔ یہ اس کی گردش پر منحصر ہے۔ زمین اور چاند تاریک کرے ہیں۔ اور یہ دونوں سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر گھومتی ہے اور چاند زمین کے گرد اپنے مدار پر گھومتا ہے۔ یہ سال میں دو مرتبہ ایک دوسرے کے سامنے آجاتے ہیں جس سے ایک کا سایہ دوسرے پر پڑتا ہے۔ چاند پر سایہ پڑتا ہے تو چاند گرہن اور سورج پر پڑتا ہے تو سورج گہن کہلاتا ہے۔
اس موقع پر معاشرے میں بعض جاہلانہ باتیں بدعقیدگی کی حد تک مشہور ہیں ، ان سے بچنا بہت ضروری ہے مثلاً یہ مشہور ہے کہ اس وقت وہ خواتین جو حمل سے ہیں وہ چھری یا تیز دھاری داریا کانٹے دار اوزار استعمال نہ کریں ورنہ پیٹ میں موجود بچے کے ہونٹ کٹ جائیں گے۔ بعض لوگ اس سورج گرہن اور چاند گرہن کو کسی حادثے کا پیش خیمہ یا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ ایسے توہمات سے دور رہنے کا حکم دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو اسی دن سورج گرہن ہوا۔ بعض لوگ یہ کہنے لگے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے کا انتقال ہوا ہے اس لیے سورج کو گرہن لگ گیا ہے۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیمات دی ہیں انہیں ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند کسی کے مرنے سے گرہن نہیں ہوتے، یہ تو قدرت خداوندی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز پڑھو۔ (صحیح بخاری، باب الصلاۃ فی کسوف الشمس ، حدیث نمبر 1041)
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرا کر اٹھے اس خوف سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام ، لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی. (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد فرمایا کہ یہ (سورج اور چاند گہن) نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتاہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کے ذکر اور اس سے استغفار کرو۔ (صحیح بخاری ،باب الذکر فی الکسوف ، حدیث نمبر 1059)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ان کو کسی کی مو ت یا زند گی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا جب تم انہیں (اس حالت میں ) دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو، اللہ تعا لیٰ سے دعا مانگو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ (صحیح مسلم ،باب صلاۃ الکسوف، حدیث نمبر: 2044)
دیگر خوشی و غمی کے مواقع کی طرح اس موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات یہ ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

سورج گرہن کے وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نماز کا حکم دیا ہے۔ اسے ’’صلوٰۃ الکسوف‘‘ کہتے ہیں۔
صلوٰۃ الکسوف دو رکعات والی نماز ہے۔ اس میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔ سورج گہن کے وقت باجماعت ادا کی جائے۔ اور اس میں جہری قرآت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت اپنی ذات باری کی طرف رجوع کرنے والا بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے