جی ٹوینٹی(G-20) کی صدارت

تحریر: محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جی-20 کی صدارت اس بار ہندوستان کے حصے میں آئی ہے، اس کے ارکان انیس ممالک اور ایک یورپین یونین ہے، جس کی وجہ سے اسے جی -۰۲ یعنی بیس کا گروپ کہا جاتا ہے، اس گروپ میں ارجنٹائنا، آسٹریلیا، برازیل، کناڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا ، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور یورپین یونین شامل ہے، اس طرح کہنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے بعد یہ سب سے مضبوط گروپ ہے، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک شامل ہیں، اس گروپ میں شریک ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی ، پچھہتر فی صد عالمی تجارت اور اسی فی صد سے زائد دنیا کی مجموعی گھریلو مصنوعات (GDP) پر قابض ہونے کی وجہ سے مضبوط ترین سیاسی قوت ہے، جو ہمہ جہت ترقی، موسمیات وماحولیات ، خوراک، پر امن بقاءباہم کے اصول اور حفظان صحت کے منصوبے پر کام کرتا ہے۔ ۶۲ ستمبر ۹۹۹۱ءکو اس گروپ کی تشکیل ہوئی تھی، مختلف ممالک کے بعد اب اس کی صدارت بھارت کے حصہ میں آئی ہے اوران دونوں وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی اس کے سر براہ ہیں۔
اب تک دوسرے ممالک اس گروپ کے لیے ترجیحی ایجنڈا طے کرتے رہے ہیں، بھارت کے صدر ہونے کی حیثیت سے اب اس کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے پر گروپ کے دوسرے ممالک کو راضی کرکے کام کو آگے بڑھا سکے او راپنی ترجیحات کو مرکز توجہ بنا سکے، بالی کے حالیہ اجلاس میں جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس پر تمام ممالک کو متحد کرانے میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اہم رول ادا کیا اور ان کی تقریر کے اس جملے کو کہ ”آج کا عہد جنگ کا عہد نہیں ہونا چاہیے“ من وعن بالی اعلانیہ میں شامل کر لیا گیا، کاش بھارت کے اندرونی معاملات میں بھی مودی جی کا یہ نظریہ کام کرتا تو نفرت کی کاشت اس قدر نہیں ہو پاتی اور بھارت امن وسلامتی اور رواداری کا گہوارہ ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے