قربانی کا صحیح تصور پیش کرنے کی ضرورت

ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
7061674542

اس میں شک نہیں کہ قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے ، مسلمانوں کو دو تہوار عطا کئے گئے ہیں ، عید الفطر ، عید الاضحی ، اس کے علاوہ باقی رسوم و رواج سے منع کیا گیا۔
، عید الفطر جو ایک مہینہ کے روزے رکھنے کے انعام میں عنایت کیا ، جبکہ عید الاضحی ( قربانی) اللہ کے دو محبوب پیغمبر حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کی یاد میں منایا جاتا ہے ، قربانی میں چونکہ خون بہایا جاتا ہے جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے ( حلال جانور) اور اللہ تعالی کو قربانی کے دنوں میں سب سے زیادہ یہی چیز پسند ہے ، اب اس میں فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کی ہر وہ ادا پسند ہے جب بندہ اپنے محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کردے ، اور بندے کی سب سے محبوب چیز اس کا مال ہے اللہ تعالیٰ بندے کی محبوب چیز کو اپنی راہ میں خرچ کرواکر اس کے قلب کی صفائی چاہتا ہے تاکہ دنیا کی محبت کم ہو جائے۔
مسلمان عید الاضحی کے موقع پر بھاری قیمت میں گائے بیل بکرا خریدتا ہے اور اس کو ذبح کرکے اس کو استعمال میں لاتا ہے ، اسلام نے اول تو قربانی کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے اور پھر یہ دستور مقرر کیا کہ اپنے جانور کے گوشت میں تین حصے کئے جائیں ، اول مستحقین تک اس کا گوشت پہنچایا جائے ، پھر رشتہ داروں تک بطور ہدیہ پیش کیا جائے۔
یہ دستور مقرر کیا گیا ہے گوشت کے استعمال کا تاکہ جو مستحق ہیں اس کو بھی فائدہ پہنچے اور رشتہ داروں میں ربط بھی خوشگوار ہو جائے۔
ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ ایک جمہوری ملک ہے ، یہاں ہر مسلک و مشرب کے لوگ ہیں خصوصاً برادران وطن کی تعداد زیادہ ہے ، برادران وطن میں زیادہ تر تعداد ان کی ہے جو گو رکشک ہے ، گائے بیل ان کے یہاں قابل احترام ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بقرعید کا موقع آتا ہے تو مسلمانوں کے تئیں ایک نفرت کی فضا بن جاتی ہے ، بعض مقامات پر تو فساد پھوٹ پڑتا ہے اور ہندو مسلم کا رن پڑ جاتا ہے ، کئ علاقوں میں پولیس کی گردش شروع ہو جاتی ہے اور گھر گھر داخل ہوکر تفتیش ہوتی ہے ، کئ صوبوں میں تو حکومت کی طرف سے گائے بیل پر پابندی عائد کی جاتی ہے ، حالانکہ ہندوستان کا دستور ہمیں اجازت دیتا ہے ملک کے آئین میں یہ بات ہے کہ ہر مسلک و مشرب کے
ہم ایک سچے مسلمان بن جائیں ، ہم اپنی خواہشات کو مٹا دیں ، نفرت کو دفن کردیں ، جھوٹ فریب دغا بازی کو دل سے نکال باہر کریں ، ایک دوسرے کے حقوق سمجھیں ، اپنی بھائیوں کی بلا تفریق مذہب مصیبت میں کام آئیں ، ہمارے اندر اپنے دین و وطن کیلے قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہو جائے ، ہم آپسی لڑائی جھگڑے سے کوسوں دور چلے جائیں ، یہ پیغام ہے ہماری قربانی کا ، ورنہ اللہ تعالیٰ کو بھی کسی جاندار کی جان لینے سے کیا فائدہ ، لیکن اللہ تعالیٰ اس ذریعۂ سے ہمیں کچھ دوسرا پیغام دینا چاہتے ہیں جس طرح ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے محض اطاعت خداوندی کیلیے ہر چیز قربان کردیا تھا ہمیں اسی سنت کو زندہ کرکے ایک پکا سچا مسلمان بننا ہے۔
قربانی کا تصور صرف یہ نہ لیا جائے کہ ہم مزے اڑائیں بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے کام انجام دیں تاکہ ہمارا بھلا ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے