اس دنیا کو اللہ رب العزت نے امتحان گاہ بنایا ہے، اس نے موت وحیات کو اسی لیے پیداکیا کہ جاناجائے کہ عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے ، دنیا کو آخرت کی کھیتی بھی کہا گیا ہے اور اسے ایسے مردار سے تعبیرکیا گیا ہے جو کتے کی طلب ہوتی ہے ، یہاں کی شادابی اوررونق، مال واولاد سب آزمائش اورفتنہ پیدا کرنے والی ہیں، جوادھر متوجہ ہوگیا اوردنیا کی چکا چوند میں کھوگیا ، حلال وحرام کی تمیزکھودیااوردنیا یا جاہ ومنصب اورعزوجاہ کی وجہ سے اللہ کو فراموش کر بیٹھا وہ اس امتحان میں فیل ہو گیا ، نا مرادی اور ناکامیابی اس کامقدر بن گئی ۔
امتحان کا لفظ سنتے ہی طلبہ کا ذہن پریشان ہوجاتا ہے۔ کیوںکہ اسے معلوم نہیں ہوتاکہ کس قسم کے سوالات کا سامنا انہیں کرنا پڑیگا،جوابات کے لیے اوقات بھی متعین اور محدود اور امتحان گاہ بھی تنگ ، پہلے طلبہ کتابوں سے تیاری کرتے تھے ، پھر اساتذہ نوٹس لکھا دیا کرتے تھے، سوالات دس پانچ سال کے حل کرادیتے تھے، اب اس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، چھپے ہوئے نوٹس اور گیس پیپر نے امتحان کے مراحل کو نسبتاً آسان کر دیا ہے ، اور گھبراہٹ ودہشت میں تھوڑی کمی آئی ہے ، لیکن اب بھی امتحان کا موسم آتے ہی ذہن ودماغ پر یہی فکر چھائی رہتی ہے کہ ہمارا کیا ہوگا۔ کیوں کہ امتحان کے وقت انسان یا تو قابل تعظیم ٹھہرتا ہے یا ذلت اس کا مقدر بنتی ہے ۔
لیکن اللہ رب العزت کی کرم فرمائی اور اس کی بے پناہ رحمتوں کا تصور کیجئے، اس مالک نے امتحان کی مدت گھنٹوں اور منٹوں میں مقرر نہیں کیا، اس نے انسانوں کو ایک لمبی عمر عطا فرمائی ، پوری دنیا کو امتحان گاہ بنادیا ، قرآن کریم جیسی کتاب عطا فرمائی جو لوگوں کی ہدایت او رزندگی میں پیش آنے والے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں تیار کرتی ہے، پھر اس کتاب ہدایت کو قولی اور عملی طور پر سمجھانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین اور علماء کرام کے ذریعہ مختلف ادوار کے لیے ایسا انتظام فرمایا کہ جب چاہیے سمجھ لیجئے، دیکھ کر سمجھئے، علماء سے پوچھ کر عمل کر لیجئے، کوئی دارو گیر اور اخراج نہیں ہے ، پوری مدت گذارنے کے اور وقت فراہم کرنے کے بعد جب اس دنیا سے کوچ کرے گا تو اب اسے ان سوالات کے جوابات دینے ہوں گے ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی آؤٹ کر دیا تھا ، دنیاوی امتحان میں سوالات آؤٹ ہو جائیں تو امتحان رد ہوجاتا ہے ، اللہ رب العزت کی رحمت تو دیکھیے اس نے سوالات خفیہ نہیں رکھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ تین سوال قبر میں ہوں گے اور پانچ سوال قیامت کے دن ، تین سوال جو قبر میں ہوگا وہ رب ، دین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں ہوگا، تمہارا رب کون ہے ، تمہارا دین کیا ہے ، اور اس ذات اقدس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ جس نے دنیاوی امتحان گاہ کو احکام خدا اور رسول کی روشنی میں برتا ہوگا، اور زندگی کتاب ہدایت کے مطابق گذاری ہوگی، وہ ان سوالوں کا صحیح جواب دے گا،اس کے لیے جنت کی کھڑکیاں کھول دی جائیں گی ، اور فرشتہ کہے گا کہ سو جا ، جیسی دلہن اطمینان کے ساتھ سوتی ہے ، اور جس نے امر خدا وندی کی ان دیکھی کی ہوگی وہ کہے گا کہ ہا ہا لا ادری ، افسوس میں کچھ نہیں جانتا ،بس یہیں سے امتحان کے نتیجے کا آغاز ہوجائے گا ، جہنم کی کھڑکیاں کھول دی جائیں گی اور مختلف قسم کے عذاب اس پر مسلط کر دیے جائیں گے ، پھر ایک طویل وقفہ کے بعد جسے اللہ ہی جانتا ہے ، دوسرا امتحان شروع ہو گا، اس کے بھی سوالات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آؤٹ کر دیے ہیں، یہ قیامت کا دن ہوگا اور انسان اس وقت تک میدان حشر سے ٹل نہیں سکے گا ، جب تک ان پانچ سوالوں کا جواب نہ دیدے، عمر کن کاموں میں لگایا، جوانی کن کاموں میں صرف کیا، مال کس ذریعہ سے کمایا ، اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس پر کس قدر عمل کیا۔
ان سوالوں کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہماری عمر فضولیات اور منکرات میں تو نہیں لگ رہی ہے ، جوانی اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا غلط مصرف تو نہیں لیا جا رہا ہے ، مال کے حصول کے لیے ان طریقوں کا استعمال تو ہم نہیں کر رہے ہیں، جو ناجائز اور حرام ہیں، اسراف اور فضول خرچی ، دکھاوے ، آتش بازی میں مال کو خرچ تو نہیں کیا جا رہا، جن لوگوں کے پاس علم ہے وہ اس کی روشنی میں اعمال کا جائزہ لیں کہ ہمارا عمل تو کہیں علم کے خلاف نہیں ہے ، دنیا میں زندگی اگر صحیح انداز میں گذاری ہوگی تو ان سوالوں کے جوابات آسان اور مرضی مولیٰ کے مطابق ہوں گے تو اس کا حساب کتاب آسان ہو گا اور رزلٹ داہنے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا، تو وہ خوش خوش لوٹے گا، اور جوان سوالات کے جوابات مرضی مولیٰ کے مطابق نہیں دے گا، اس کو پشت کی جانب سے بائیں ہاتھ میں رزلٹ دیا جائے گا، یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ ناکام ہو گیا ، اور دنیاوی زندگی میں اموال واولاد نے اسے اللہ کے ذکر سے غافل کر دیا اب وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اس لیے قبل اس کے کہ ہمارے امتحان کی تیاری کا وقت پورا ہوجائے ، ہمیں اپنی تیاری پوری کر لینی چاہیے اورزندگی اس کتاب کے بتاتے ہوئے طریقہ کے مطابق گذارنی چاہیے؛ تاکہ قبر کے تین اور میدان حشر کے پانچ سوال کے جوابات میں ہمیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تحریر: محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ