کسی بھی شخص کو خیر کے کام کا موقع فراہم ہونا اتفاق نہیں ہوتا، بل کہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور توفیق ہوا کرتی ہے،جن بندگان خدا سے باری تعالیٰ راضی اور خوش ہوتے ہیں ان کے لیے خیر کے کاموں کی راہ ہموار کرتے ہیں،سورۃ اللیل کی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "فسنیسرہ للیسری” (آیت:07)علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے لیے کشادگی پیدا کرتےہیں،کشادگی سےمراد ایسے عمل کی توفیق ملنا جس سے اللہ تعالیٰ دنیا میں راضی ہوں تاکہ آخرت میں اس عمل کی وجہ سے جنت عطا کرسکیں،(تفسیر طبری) اور جو بندے خدا فراموش اور شریعت کو ثانوی درجے میں رکھ کر زندگی گزارتے ہیں ان سے یہ توفیق و تیسیر چھین لی جاتی ہے،بس معلوم ہوا کہ قربت و عبادت کا تعلق توفیق سے ہے،یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس توفیقِ خداوندی کے نصیب ہونے میں انسان کی معیشت اور کمائی کا بہت بڑا دخل ہے،جس شخص کی کمائی پاکیزہ اور حلال ہوگی اور جو پاک و طیب طریقِ معاش اختیار کرے گا اللہ تعالی ایسے بندوں کو بکثرت اعمال صالحہ کا موقع عنایت فرمائیں گے، اور نہ صرف اس کو بل کہ اس کی نسلوں میں تک اس کے نفیس و پاکیزہ اثرات کو منتقل کرتے ہیں،آج معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اپنے اولاد کے باغی و نافرمان ہونے کا شاکی ہے، اور ان کی بے راہ روی و بے دینی بل کہ آوارگی و بددینی کو لے بے حد فکر مند اور نہایت غمگین ہے، ان کا یہ تصور و خیال ہے کہ زمانے کی رنگینیوں اور معاشرے کی خرابیوں نے باوجود ان کی ہزار تربیت و نگرانی کے
نوجوان نسل کو آوارہ و بے ہودہ بنا دیا،حقیقت یہ ہے کہ نسلِ نو کے بگاڑ میں جہاں معاشرتی مفسدات کار فرما ہیں وہیں ان کے افزائش میں استعمال شدہ حرام اور مشتبہ مال بھی اثر دار ہے، دنیا میں جتنے بھی اولیاءِ عظام گزرے ہیں ان کے سوانحات میں یہ بات نمایاں طور پر ملتی ہے کہ ان کے والدین نے ان کی نشونما اور روزی روٹی میں غایت درجہ احتیاط برتا ہے، اور حرام تو درکنار، مشکوک و مشتبہ روزی کو بھی ان کے قریب آنے نہیں دیا، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آفتابِ ہدایت بن کر عالم دنیا پر چھا گئے اور امت کے ایک بڑے طبقے کو صراط مستقیم پر گامزن کیا، اور اپنے والدین کے لیے تاہنوز صدقۂ جاریہ بنے ہوئے ہیں، گو ان کے والدین نے کوئی بڑا دینی کارنامہ انجام نہ دیا ہو لیکن اپنی اولاد کی تربیت کے تئیں جو حزم و اختیاط سے کام لیا وہی ان کی دنیا میں ترقی اور آخرت میں بلندگئ درجات کا باعث بنا،اس کے برعکس جو شخص حرام مال کماتا اور کھاتا ہے اللہ اس کی حق شناسی کی دولت کو ختم کر دیتے ہیں،اس کے نور ایمانی کو بجھا دیتے ہیں اور ایسے شخص کا دل مردہ ہو جاتا ہے، حق اور ہدایت کی بات اس کے ضمیر پر اثر انداز نہیں ہوتی، اعمال صالحہ کی اس کو توفیق نہیں ملتی اور سارے اسباب مہیا ہونے کے باوصف کبھی خیر کے کاموں کی طرف اس کی طبیعت مائل نہیں ہوتی،اس کے قلب پر شیطان کا تسلط ہو جاتا ہے، اور یہ شخص معاشرے کے لیے ایک موذی جانور کی طرح نقصان دہ ہو جاتا ہے، نیز جو شخص ناجائز طریقے سے مال کماتا ہے اس کو عبادت کی توفیق تو کیا میسر آتی بل کہ اس کی کی ہوئی عبادتیں اور دعائیں بھی عند اللہ مردود ہو جاتی ہیں،حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاوٴ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے موٴمن بندوں کو دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاوٴ! اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم:۱۰۱۵، جامع ترمذی:۲۹۸۹)
چنانچہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ”مستجاب الدعاء“ لوگوں کی ایک جماعت تھی۔جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُس کے لیے بد دعا کرتے، وہ ہلاک ہوجاتا۔حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعا سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔(فضائل رمضان:۲۹)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ”ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے لیے دُعا کیجیے کہ میں ”مستجاب الدعوات“ ہوجاوٴں!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اپنے کھانے کو پاک کرو!“ اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا۔ جس شخص کا بدن حرام مال سے بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔“ (المعجم الاوسط للطبرانی: ٦٤٩٥)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا؛ لیکن اُس میں ایک درہم حرام کا تھا ، تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔“ (مسند احمد:۵۷۳۲)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت میں ہے کہ: ”جس نے حرام مال سے کرتا پہنا تو اُس کی نماز قبول نہیں۔(مسند بزار:۸۱۹)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”منہ میں خاک ڈال لینا اِس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منہ میں ڈالے۔“ (شعب الایمان:۵۳۷۹)
بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی ضرور آئے گا جس میں انسان بالکل بے پرواہ ہو کر مال حاصل کرے گا یہ بھی نہیں دیکھے گا کہ وہ حلال طریقے سے آرہا ہے یا حرام راستے سے۔(بخاری حدیث نمبر 2083)،گویا اسی زمانے کی نبی علیہ السلام نے پیشن گوئی کی ہوگی، آج معاشرے میں جتنی بھی کاروباری سکیمیں اور تجارت کے نئے طریقے رائج ہو چکے ہیں ان میں سے اکثر کے احوال مشتبہ اور گڑبڑ ہیں اور امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ بے دریغ ان معاملات میں ملوث ہوتا چلا جا رہا ہے،شئیر مارکیٹنگ اور مَنی اِنوسٹمنٹ وغیرہ کے بابت جو شرعی اصول و ضوابط ہیں، شرکت و مضاربت کے جو شرائط ہیں ان کا ذرا لحاظ کئے بغیر سودی کاروبار کی خوب ترویج کی جارہی ہے، اور بہت سارے مسلمان دانستہ و نا دانستہ طور پر آپ علیہ السلام کی پیشنگوئی کے مطابق محض مال کے حصول کے لیے اس سودی نظام کے بھونر میں پھنسے ہوے ہیں،کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کا گزارن ہی سو فیصد سودی سرمایہ پر ہے،قرض دے کر ماہانہ اس کا انٹرسٹ وصول کرنا، بینک میں جمع شدہ مال پر حاصل ہونے والے سود کا استعمال،قرضہ دے کر رہن پر رکھی گئے دکان و مکان میں تجارت و سکونت اختیار کرنا،بیٹنگ ایپلیکیشنز میں پیسہ انویسٹ کرکے جوا سٹہ کی شکل میں مال کمانا وغیرہ یہ بلا ریب حرام ہیں،مگر مسلم امہ بڑے شوق کے ساتھ یہ سب کچھ کررہی ہے۔
اب غور کریں جن جسموں کی نشوونما ہی خالص سودی مال اور حرام رقم سے ہوئی ہو کیا وہ جسم خدا کی بندگی کے قابل ہیں؟ کیا انہیں اللہ اپنے گھر عبادت کے لیے بلائے گا؟ کیا ایسے لوگوں کو حج و زکوۃ کے مواقع فراہم ہوں گے؟ کیا ایسے لوگ اقامتِ دین اور خلافت ارضی کی عظیم ذمہ داری کا استحقاق رکھتے ہیں؟ کیا ان کی نسلوں میں علماء و صلحاء،اتقیاء و اولیاء پیدا ہوں گے؟ ہرگز نہیں! بل کہ ایسی قوم تو خدا کے قہر اور عذابات کا شکار ہو جائے گی، اللہ اپنے دشمنوں کو ان پر تسلط و اقتدار عطا فرمائیں گے،ان کے سارے اختیارات سلب کر کے انہیں مقہور و مجبور ہو کر زندگی گزارنا پڑے گا، اور یہ لوگ ہمیشہ مظالم و آلام کی چکی میں پستی رہیں گے۔
ہم اس زمانے کے مسلمانوں کا سلف سے موازنہ کریں،صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تو مشتبہ مال کا ایک لقمہ بھی اپنے پیٹ میں چلے جانے پر دنیا و آخرت میں ہلاکت کا اندیشہ کیا کرتے تھے،حضرت ابوبکر صدیق ، کا ایک غلام تھا، جو غلہ کے طور پر اپنی آمدنی میں سے کچھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا، ایک مرتبہ وہ کچھ کھانا لایا اور حضرت نے اس میں سے ایک لقمہ نوش فرمالیا، غلام نے عرض کیا کہ آپ روزانہ دریافت فرمایا کرتے تھے کہ کس ذریعے سے کمایا ؟ آج دریافت نہیں فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے دریافت کرنے کی نوبت نہیں آئی ، اب بتاؤ۔ عرض کیا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک قوم پر گذرا اور ان پر منتر پڑھا، انہوں نے مجھ سے وعدہ کر رکھا تھا، آج میرا گذر ادھر کو ہوا تو ان کے یہاں شادی ہو رہی تھی ، انہوں نے یہ مجھے دیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ تو مجھے ہلاک ہی کر دیتا۔ اس کے بعد حلق میں ہاتھ ڈال کر قے کرنے کی کوشش کی، مگر ایک لقمہ وہ بھی بھوک کی شدت کی حالت میں کھایا گیا تھا، نہ نکلا۔ کسی نے عرض کیا کہ پانی سے قے ہو سکتی ہے، ایک بہت بڑا پیالہ پانی کا منگوایا اور پانی پی پی کر قے فرماتے رہے، یہاں تک کہ وہ لقمہ باہر نکال دیا۔ کسی نے عرض کیا کہ اللہ آپ پر رحم فرما ئیں! یہ ساری مشقت اس ایک لقمہ کی وجہ سے برداشت فرمائی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری جان کے ساتھ بھی یہ لقمہ نکلتا، تو میں اس کو نکالتا، میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ جو بدن مال حرام سے پرورش پائے ، آگ اس کے لیے بہتر ہے۔ مجھے یہ ڈر ہوا کہ میرے بدن کا کوئی حصہ اس لقمہ سے پرورش نہ پا جائے۔ منتخب کنز العمال) ﴿ماخوذ از حکایات صحابہ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ﴾
اج امت مسلمہ کی زبوں حالی بیان سے باہر ہے، نہ عبادات میں جی لگتا ہے اور نہ ان کی توفیق ملتی ہے، گھر کی عورتیں جن کی کبھی تہجد بھی قضا نہیں ہوتی تھی فرائض ہی کو کبھی کبھی ادا کر رہی ہیں، اور نوجوان نسل کی دینی حالت کا تو پوچھنا ہی کیا! ان تمام کی ایک اہم وجہ یہی حرام و ناجائز لقموں کا پیٹ میں داخل ہونا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہم سے طاعت کی لذت اور عبادت کی توفیق دونوں چھین لیا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو اکل حلال کی توفیق عنایت فرمائے اور حرام بلکہ مشتبہ روزی کے دانے دانے سے ہماری حفاظت فرمائے۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی (اقبال)
تحریر: مفتی محمد سلمان قاسمی محبوب نگر
خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد