آج راہل گاندھی پر نئی نسل کا بھروسہ بڑھا ہے۔۔۔ بھارت جوڑو یاترا کے ساتھ ساتھ کرناٹک اور ہماچل کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کی جیت کے بعد کانگریس نے اپنے انتخابی منائفسٹو پر عمل کر اپنے وعدے جس طرح پورا کر رہی ہے نئی نسل کو کانگریس پر عتماد بڑھا ہے
ابھی ہوئے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس نے ملک کی پارلیمانی سیاست کی تصویر تقریباً واضح کر دی ہے۔ایک طرف حکمراں جماعت کے سخت تیور وہیں اپوزیشن جماعتیں بھی اب اسی انداز میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار نظر آئیں ۔ راہل گاندھی کی بھی پارلیمنٹ میں دوبارہ حاضری بالکل نئے انداز میں تھی۔راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت ایک دن قبل ہی بحال ہوئی تھی ’بھارت جوڑو یاترا‘کے بعد سے راہل گاندھی اور کانگریس میں جو خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے، اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لہذا راہل گاندھی کے جارحانہ تیور اور حزب اختلاف کی سرگرمیوں سے واضح ہوتا ہے کہ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں مقابلہ دلچسپ ہونے والا ہے۔ دوسری طرف کانگریس صدر ملکارجن کھرگے جس طرح تنظیمی ڈھانچہ پر توجہ دے رہے ہیں سبھی ریاستوں کی کمیٹی سے الگ الگ مل رہے ہیں جس میں راہل گاندھی بھی موجود رہتے ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا کی کانگریس کے اچھے دن شروع ہونے والے ہیں
یوں تو ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت، عدم رواداری اور سماجی انتشار حکمراں جماعت کے لئے سود مند ثابت ہوتا رہا ہے، مگر کئی مواقع ایسے آئے ہیں کہ ملک کے عوام اس کے ان حربوں میں نہیں آئے اور اس کی توقع کے برخلاف اپنا فیصلہ سنایا۔ کرناٹک اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ مگر ہریانہ میں نوح تشدد اور اس کے بعد حکمراں ٹولے نے جس طرح کا ماحول بنانے کی کوشش کی، اس پر مختلف کھاپ پنچایتوں، جاٹ لیڈران اور کسان رہنماؤں نے پانی پھیر دیا ہے جہاں یہ کامیاب نہیں ہوئے۔۔۔۔ عوام کے اندر جو زہر بھرا گیا تھا اب دھیرے دھیرے کم ہو رہا ہے پہلے شرپسند طاقتیں اپنے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے سے حوصلہ پا کر ملک کی اقدار و روایات کو ختم کرنے ، اخوت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے پر آمادہ نظر آتی ہیں آج بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی ان شر پسند لیڈر کے خلاف کارروائی کرنی پڑ رہی ہے ۔اسی کی خاص وجہ یہ ہے کہ راہل گاندھی نے ستمبر ۲۰۲۲ءمیں کنیا کماری سے ’بھارت جوڑو یاترا‘ شروع کی جو ۔جنوری ۲۰۲۳ء تک چلنے والی تقریباً چار ہزارکلو میٹر کی اس ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو ملی عوامی حمایت سے یہ واضح ہوگیا کہ ملک کے عوام کی اکثریت آپسی بھائی چارہ میں یقین رکھتی ہے۔لہذا ان مسائل پر حکومت کو گھیرنے کے لئے پارلیمنٹ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔
راہل گاندھی اپنی محنت میں کوئی کمی نہیں کر رہے ہیں خبر ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کا دوسرا مرحلہ گجرات کے پوربندر سے شروع ہونے جا رہا ہے، اس بار وہ ہندی بیلٹ خاص کر مدھیہ پردیش، اترپردیش اور بہار میں زیادہ وقت گزاریں گے، ان کی اس یاترا سے اس خطہ میں بھی کانگریس کو فائدہ ہوگا اور لوگوں کا عتماد بھی بڑھے گا لوگ کانگریس سے جوڑیں گے
مرکزی حکومت کے خلاف لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ کیا آنے والا ہے، یہ تو پہلے ہی پتہ تھا۔ لیکن تحریک لانے کا ایک مقصد حزب مخالف جماعتوں کواپنی طاقت اور اعتماد کا اظہار بھی کرنا تھا۔ منی پور کے انسانیت سوز واقعات نے نہ صرف پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر اس کی گونج سنائی دی ہے۔
حکومت حامی سمجھے جانے والے کچھ میڈیا اداروں اور صحافیوں نے آن لائن سروے کئے کہ مودی اور راہل گاندھی کی تقریر میں آپ کو کس کی تقریر زیادہ پسند آئی، تو اس کے نتیجے بھی راہل گاندھی کے ہی حق میں تھے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ’سنسد ٹی وی‘ پر ناظرین کی تعداد (ویوز)کا موازنہ بھی کیا گیا۔ راہل گاندھی اس میں بھی نریندر مودی پر سبقت لے گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ راہل گاندھی نے اپنی محنت اور کوششوں سے خود کو کافی حد تک نریندر مودی کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔تحریک عدم اعتماد پر تقریر سے ایک دن پہلے ہی راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت بحال ہوئی تھی۔۔ سپریم کورٹ نے گجرات کی مقامی عدالت کے فیصلے پر روک لگاتے ہوئے یہ کہابھی کہ راہل گاندھی کو دو سال کی سزا سنائے جانے سے صرف ان کی نہیں، بلکہ ان کے ووٹروں کی بھی حق تلفی ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ نچلی عدالت اور گجرات ہائی کورٹ نے سیکڑوں صفحات سیاہ کردیئے ،لیکن وہ’وجہ‘ بتانے کی زحمت نہیں کی جس کی بنیاد پر راہل کو ’زیادہ سے زیادہ سزا‘ کا مستحق قرار دیا گیا۔ اگر راہل کی سزا دو سال سے ایک دن بھی کم ہوتی تو ان کی رکنیت نہیں جاتی۔ عدالت عظمیٰ کے اس تبصرے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ راہل گاندھی کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ ویسے بی جے پی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک جمہوری نظام میں اس طرح کی کوششیں درست نہیں ہیں، بلکہ اس سے وہ اپنی شبیہ کو ہی مزید داغدار کر رہی ہے۔کیا حکومت کے کام پر نظر رکھنا، اس کی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرنااور حکومت سے سوال کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اگر راہل گاندھی یا دیگر اپوزیشن جماعتیں منی پور اور ہریانہ میں خون خرابے پر سوال اٹھا رہی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ ملکارجن کھرگے جی اتر پردیش اور بہار میں اپنے تنظیمی ڈھانچے کو نئی طاقت دیں اتر پردیش کانگریس کے ریاستی صدر برج لال کھابری جن کا تعلق بھی دلت سماج سے ہے، ان کی وجہ سے دلت ووٹوں کا رجحان بھی کانگریس کی طرف بڑھ رہا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ دو سال قبل اسمبلی انتخاب کے بعد انچارج جنرل سیکریٹری پریانکا گاندھی کا دورہ نہیں ہوا ۔۔۔ جب کہ ۲۰۰۹ کے لوک سبھا انتخاب میں اتر پردیش سے کانگریس ۲۱ سیٹ جیتی تھی اس وقت ملائم سنگھ یادو کانگریس کو صرف ۶-۵ سیٹ ہی دینے کو تیار ٹھے۔۔۔ پریانکا گاندھی کانگریس کی مقبول لیڈر ہیں چاہیں تو اترپردیش میں پارٹی پھر سے کھڑی ہو سکتی ہے اتر پردیش سب سے بڑی ریاست ہے جہاں لوک سبھا کے ۸۰ سیٹ ہے۔۔۔ بہار میں اکھلیش پرساد سنگھ ریاستی کانگریس کے صدر ہیں ابھی تقریباً ۶ ماہ گزر گئے صدر بنے مگر ابھی تک کمیٹی کی تشکیل نہیں کی ہے ان کی سوچ لالو پرساد یادو اور نتیش کمار پر ہے کے یہ نیّہ پار لگا دیں گے۔۔۔
ہمارے حساب سے تو ہونا یہ چاہیے کی راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں جو لوگ شامل تھے اُن کو ریاستی کمیٹی میں الگ سے جگہ دی جاتی جس سے راہل گاندھی کا سندیش عوام تک پہنچ سکے جس سے پارٹی مزید مضبوط ہوتی بہار میں تو دو فائر برانڈ لیڈر تھے ایک کنہیا کمار اور دوسرے عمیر خان۔۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کنہیا کمار کو تو این ایس یو آئی کا انچارج بنا دیا مگر عمیر خان کو کانگریس نے اپنے کسی مین باڈی میں جگہ نہیں دیا ہے۔۔۔ کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے ان جیسے پڑھے لکھے سپاہی کو مناسب جگہ دینی ہوگی تبھی ۲۰۲۴ کا راستہ ہموار ہوگا
تحریر: ٹی۔ایم۔ ضیاء الحق