سچا دوست بھی ہوتا ہے اللہ کی نعمت!

آج ہر کوئی چاہتاہے ہے کہ ایک ایسا ساتھی ملے ایسا دوست ملے جو دکھ سکھ میں شریک رہے، ہر کام میں ہاتھ بٹائے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ میں خود فلاں کا ساتھ پکڑوں اور اس کے دکھ سکھ میں شریک رہوں اس کی آواز میں آواز ملاؤں اس کے مسائل کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں اور اس کے چہرے پر جو لکیریں ابھریں اس سے میں اس کے حالات کا اندازہ لگالوں یاد رکھیں ساتھی اور دوست میں فرق ہوتا ہے، دوستی اور ٹائم پاس میں فرق ہوتا ہے ،، ساتھی سے مراد ساتھ ہے اور ساتھ کبھی بھی ہوسکتا ہے اور کسی سے بھی ہوسکتا ہے سفر کے دوران ساتھ ہوجاتاہے ،بھیڑ بھاڑ کے دوران ساتھ ہوجاتاہے لیکن وہ ساتھ مستقل مزاجی پر مشتمل نہیں ہوتا بس ایک دوسرے نے نام پتہ معلوم کیا، ذات برادری معلوم کیا کیا کام کرتے ہو کہاں جارہے ہو کس کے وہاں جارہے ہو کس کام سے جارہے ہو کبھی کبھی دوران گفتگو ہی اسٹیشن بھی آجاتا ہے اور دو چار میں سے ایک اتر بھی جاتا ہے اور ایسے ساتھ میں لوگ اکثر وبیشتر جھوٹ بھی بولا کرتے ہیں اپنی بڑائی بھی بیان کیا کرتے ہیں اسی کو ساتھی کہتے ہیں جو کبھی کبھی مفاد پرستی کی چادر بھی اوڑھے رہتے ہیں-
ٹائم پاس یہ بھی ساتھی کے ہی زمرے میں آتا ہے دنیا کی رنگ ریلیوں پر منحصر ہوتاہے جیب میں موجود سکوں کی جھنکار کو سنتا رہتا ہے ، میرے پاس پیسہ ہے تیرے پاس ہے کہ نہیں اس کا پتہ لگاتا رہتا ہے ، کل میں گھومنے جاؤں گا تو چلے گا کہ نہیں، کل میں پارٹی دوں گا بتا تو پارٹی دے گا کہ نہیں، آج میں ڈھابے پر جارہا ہوں بتا کیا تو بھی چلے گا اگر دوسرا شخص تیار ہوگیا تو کھانے کے دوران پہلا شخص شروع ہوجائے گا کہ آج تو میں کھلا رہاہوں بتا تو کب کھلائے گا اگر دونوں برابر کی حیثیت والے ہیں تو کچھ دن گاڑی پٹری پر رہتی ہے اور جہاں جیب ہلکی ہوئی تو ساری کہانی ختم اس طرح کے تعلق چہروں کی خوبصورتی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ایسے تعلقات میں نمائش بھی ہوتی ہے مکر و فریب بھری چالیں بھی ہوتی ہیں ایک شخص جسمانی خوبصورتی سے متاثر ہے تو دوسرا شخص مفت خوری اور لالچ میں مبتلا ہے دو میں سے کسی کے اندر خلوص نہیں بس پیسہ ہے، لالچ ہے ، خوبصورتی ہے ، بڑے باپ کی بگڑی اولاد ہے ، کچھ دنوں تک دونوں سکوں کی جھنکار میں مست مگن ہیں اسی کو ٹائم پاس کہتے ہیں-
ایک ایسا تعلق بھی ہوتا ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو تولتے رہتے ہیں اور معلوم کرتے رہتے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے تیسرا کوئی آیا تو شک و شبہ بھی کرتے ہیں اور یاد رکھیں کہ دوستی میں شک کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ شک کی بیماری لا علاج ہے، شک و شبہ کی کوئی دوا نہیں اور جس نے بھی شک و شبہ کی گنجائش رکھی تو وہ مخلص وفادار دوست سے محروم ہو جائے گا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ شک و شبہ کا فائدہ اٹھانے کے لئے دوسرے لوگ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ شک و شبہ کی کشتی کسی بھی وقت ڈوب سکتی ہے ایسے تعلقات کو دوستی کہنے والوں کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے یعنی زید و بکر دونوں اپنے کو دوست کہتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر شک بھی کرتے ہیں اور دونوں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا ساتھ کوئی نہیں چھڑا سکتا دونوں ایک ساتھ اسکول جاتے ہیں اور ایک ساتھ واپس آتے ہیں گھومنے پھرنے بھی ایک ساتھ جاتے ہیں اور دونوں کھاتے پیتے ہیں تو پیسہ الگ الگ دیتے ہیں اور بعد میں کاؤنٹر پر جاکر معلوم کرتے ہیں کہ دونوں سے پیسے برابر برابر لئے ہیں یا کم زیادہ ایک دن دونوں گھوم پھر کر واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک شخص نے آواز دی کہ سنو میرے پاس آؤ زید دو قدم بڑھا تو آواز دینے والے نے کہا کہ تمہیں نہیں اس کو بلا رہا ہوں اب بکر آگے بڑھتا ہے اور اس کے قریب پہنچتا ہے تو آواز دینے والے نے اپنے ہونٹوں کو اس کے کانوں تک لے جاکر کہتا ہے کہ جاؤ میں نے بس یوں ہی بلایا تھا بکر واپس جاتا ہے تو زید پوچھتا ہے کہ بتا اس نے کیا کہا بکر جواب دیتا ہے کہ اس نے کچھ بھی نہیں کہا زید کہتا ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس نے تیرے کان میں کچھ کہا ہے بکر کہتا ہے ہونٹوں کو کان تک لے جاکر بھی کچھ نہیں کہا بس اتنا کہا کہ جاؤ زید کہتا ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اس نے کچھ نہ کہا ہو تم جھوٹ بول رہے ہو اور مجھ سے چھپا رہے ہو بس آج سے تمہارا ہمارا ساتھ ختم نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں الگ الگ ہوگئے ایسی ہوتی ہے شک و شبہ کی بیماری آخر کشتی ڈوب ہی گئی دونوں تنہا ہوگئے شک و شبہ تو ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس سے رشتہ داریوں میں دراڑ پیدا ہوجاتی ہے اور رشتہ ٹوٹ بھی جاتا ہے لیکن ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت بھی کی ہے کہ بیٹا ایمان جیسی دولت و نعمت کے بعد ایک اچھا دوست تلاش کرنا کیونکہ دوست بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور ایسا درخت ہے کہ پھل بھی دے گا اور سایہ بھی دے گا ،، دوست کبھی غلط مشورہ نہیں دے سکتا ، دوست امانت میں خیانت نہیں کرسکتا ، دوست کبھی بھی خیانت کی راہ پر لگنے والی رائے نہیں دے سکتا،، اقوال زریں میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ دوست وہ ہے جسے دیکھ کر دل کو سکون حاصل ہو جائے اور اللہ کی یاد تازہ ہوجائے اور یہی خصوصیات دوست اللہ کی نعمت ہونے کی دلیل ہے اسی لئے دوستی میں دغا کی گنجائش ہی نہیں ہے-
وشنو ایک دن بازار میں گھوم رہا ہے کہ بہت بڑی دکان کے بوڈ پر اس کی نظر پڑتی ہے اور وہ دکان کے اندر داخل ہوجاتاہے اور پوچھتا ہے ماسٹر جی کہاں لوگوں نے پوچھا کہ کون ماسٹر تو وشنو نے کہا کہ یو سف تو کسی نے کہا کہ آگے جائیے وہ دبے پائوں قدم آگے بڑھاتا ہے دکان میں کئی کاؤنٹر لگے تھے ہر کاؤنٹر پر پوچھتا تو جواب ملتا کہ آگے جائیے آخر و ہ اس کاؤنٹر پر پہنچا جس کا ؤنٹر پر دکان مالک ماسٹر یوسف موجود تھے سامنے کھڑا ہوکر آداب عرض کرتاہے دکان مالک نے پوچھا کہ ہاں جی کیا چاہئیے تو وہ خاموش ہے اور باقی سارے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں کچھ دیر کے بعد وہ پوچھتا ہے کہ آپ یوسف ہیں اور مجھے پہچانا نہیں تو دکان مالک نے کہا کہ ہاں میں یوسف ہوں مگر تم کون ہو تو اس نے کہا کہ میں وشنو ہوں آپ نے پہچانا نہیں تو دکان مالک کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر آگے بڑھ کر گلے ملے اور اپنے قریب بیٹھایا حال چال پوچھا اور ناشتہ پانی کرانے کے بعد پوچھا کہ کیسے آنا ہوا بیس پچیس سال بعد آخر کیسے خیال آگیا تو وشنو نے کہا کہ بس یوں ہی ادھر آگیا تو بوڈ پر نظر پڑی تو مجھے بچپن کی دوستی یاد آگئی اور سوچا کہ ملاقات کرلوں اس کے بعد وشنو نے کہا کہ اب میں چلتا ہوں تو یوسف نے کہا کہ اتنے دنوں بعد ملے ہو اور جانے کی بات کرتے ہو نہیں بلکہ آج رہنا ہے اور گھر چلنا ہے کل چلے جانا مگر وشنو کرسی سے اٹھ گیا اور کہا کہ مجھے جانا ہے تو یوسف بھی چار قدم اس کے ساتھ چلے اور جیب سے نکال کر اچھی خاصی رقم اس کے ہاتھوں میں تھمائی تو یوسف نے کہا کہ یہ کیا کررہے ہیں میں نے تو آپ سے بیسہ مانگا بھی نہیں ہے تو یوسف نے کہا کہ اسے رکھ لو بہت مہربانی ہوگی جب وہ چلا گیا تو دکان پر کام کرنے والے سب لوگوں نے پوچھا کہ سر وہ کون تھا اور آپ نے پیسہ کیوں دیا تو یوسف نے جواب دیا کہ ہم دونوں ساتھ میں پڑھے ہیں اور یہ میرا دوست ہے میرے ہر کام میں ہاتھ بٹاتا تھا ہر قدم پر یہ میرا ساتھ دیتا تھا پھر یہ کہیں اور چلا گیا آج جب ملا ہے تو میں نے اس کے چہرے کو دیکھا بھی اور پڑھا بھی کہ اسے آج میری ضرورت ہے مگر یہ اپنی زبان سے کہہ نہیں سکتا مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں اس کی آخری امید ہوں تبھی تو اس نے کہا کہ میں نے پیسہ آپ سے مانگا بھی نہیں ہے لیکن میں اس بات کا قائل ہوں کہ دوست کو دیکھ خود محسوس کرو کہ اسے کوئی ضرورت ہے کہ نہیں اور وہ اپنے حالات بیان کرے اس سے پہلے اس کے قدم کو سنبھالو تاکہ اس کو ذرہ برابر شرمندگی کا یا حوصلہ شکنی کا احساس نہ ہونے پائے وہ دوست ہی کیسا کہ اسی کے سامنے اس کا دوست اپنی پریشانی کے حالات کا ذکر کرے اور وہ سب کچھ سننے کے بعد اس کا ساتھ دے،، ایک دوست کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوست کی خوشحالی اور صحت و سلامتی کیا دعا کرے اور یاد رکھیں کہ یہ سب دوستی میں ممکن ہے ٹائم پاس میں نہیں اس دوستی کرو تو سچی دوستی کرو ، پاکیزہ دوستی کرو بلند ترین اخلاق و کردار کا نمونہ پیش کرو۔

تحریر: جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے