اس بل کے خلاف تمام انصاف پسند شہری اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو ضرور بھیجیں!
تحریر: محمد ابوذر عین الحق مفتاحی
وقف کی اسلامی شریعت میں ایک اہم اور مقدس حیثیت ہے، جو نہ صرف صدقہ جاریہ کی ایک صورت ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے دین و دنیا کی فلاح و بہبود کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ وقف کی املاک مسلمانوں کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان کا تحفظ اسلامی قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔ وقف کے اصول و ضوابط واضح ہیں جن میں واقف کی نیت اور مقصد کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وقف بورڈ کا کام صرف املاک کی نگرانی اور تحفظ ہے، نہ کہ ان میں تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔
وقف ترمیمی بل 2024، جسے حال ہی میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، اس میں ایسی کئی خامیاں ہیں،
جو وقف کی اصل روح اور اسلامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ بل مسلمانوں کی وقف جائیدادوں پر حکومتی قبضہ کو آسان بنانے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی جائیدادیں کسی حکومتی ملکیت نہیں بلکہ مذہبی اور رفاہی مقاصد کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ یہ ترمیمی بل ان املاک کی حفاظت کے بجائے ان پر قبضہ کرنے والوں کے لئے راہ ہموار کرتا ہے،
ملی جماعتیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر انصاف پسند شہری اس بل کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ بل ایک خاص نظریہ کے تحت مسلمانوں کے مقدس اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے اور اسے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت نے بل پر غور و فکر کرنے کے لئے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس نے اس پر مزید رائے کے لئے سیاسی و سماجی رہنماؤں اور عوام سے ای میل اور خطوط کے ذریعے آراء طلب کی ہیں۔ یہ وقت مسلم قائدین اور عوام کے لئے ایک فیصلہ کن موقع ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور اس بل کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے نقصانات کو روکنے کی کوشش کریں۔
تمام انصاف پسند شہریوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ باقی ماندہ دنوں میں اپنی آراء ضرور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں، تاکہ اس بل کو روکنے کی مشترکہ کاوشیں کی جا سکیں روکنے کی کوشش کریں۔
تمام انصاف پسند شہریوں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ باقی ماندہ دنوں میں اپنی آراء ضرور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں، تاکہ اس بل کو روکنے کی مشترکہ کاوشیں کی جا سکیں۔——————-فقط