کل برادر مکرّم ڈاکٹر محی الدین غازی سکریٹری تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند کے بیٹے اسامہ کا نکاح انتہائی سادگی سے انجام پایا – ان کے اس اقدام پر ان کے لیے دل سے دعا نکلی – میرا خیال ہے کہ اگر ایسے نکاحوں کو رواج دیا جائے تو مسلم سماج کے بہت سے مسائل بہ آسانی حل ہوسکتے ہیں –
چند ایام قبل غازی صاحب نے خبر دی کہ انھوں نے اپنے بیٹے کا رشتہ علی گڑھ میں طے کردیا ہے – ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انھوں نے لڑکی کے سرپرستوں کو نکاح کے تمام اعمال سادگی سے انجام دینے کی تاکید کی ہے – اب نکاح کے بعد میں نے ان سے دریافت کیا : کیا آپ اپنی تمام باتیں منوانے میں کام یاب ہوگئے ؟ انھوں نے جواب دیا : ہاں ، الحمد للہ –
انھوں نے طے کیا تھا کہ نکاح ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کی مسجد میں ہوگا – دہلی سے گنتی کے چند افراد جائیں گے – ساتھ میں کوئی خاتون نہیں جائے گی – دوپہر کا کھانا ادارہ میں کھائیں گے ، لڑکی والوں کے یہاں نہیں کھائیں گے – نکاح کے بعد فوراً رخصتی عمل میں آجائے گی – دلہن کے ساتھ بس اس کا ضروری سامان کپڑے وغیرہ ایک دو اٹیچی میں آسکتا ہے ، اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لائی جائے گی – نہ بارات ، نہ جہیز ، نہ لین دین ، نہ مراسم –
نکاح بعد نماز مغرب ادارۂ تحقیق کی مسجد میں مولانا عنایت اللہ سبحانی نے پڑھایا – انھوں نے خطبۂ نکاح پڑھنے کے بعد مختصر تذکیر کی اور ایجاب و قبول کرادیا – بس نکاح ہوگیا –
آج کل مسلم سماج میں نکاح کو مسرفانہ رسوم کی وجہ سے بہت مشکل بنا دیا گیا ہے – لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کے والدین کو جہیز فراہم کرنے کی فکر ستانے لگتی ہے – گراں بار مصارف کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں اور سماج میں دوسری برائیاں جنم لینے لگتی ہیں –
نکاح کو آسان بنانے کے لیے سماج کے سربرآوردہ لوگوں کو آگے آنا ہوگا – تقریریں بہت ہوچکیں ، اب عملی ثبوت دینا ہوگا – اگر ایسے آسان نکاح کا چلن عام کیا جائے تو مسلم سماج کو پاکیزگی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے اور بہت سی برائیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے –
ازقلم: محمد رضی الاسلام ندوی