ایمان و اتحاد، تعلیم و تربیت، معاشی استحکام و تعارف اسلام
ازقلم: ڈاکٹر سید آصف عمری، حیدرآباد
موبائل نمبر: 9885650216
ہرقوم کی ترقی ،فلاح وبہود،اتحاد وبقاءباہمی اتحاد میں مضمر ہے،مگر اسلام کے نزدیک ایمان وتقویٰ کے ساتھ اتحاد واتفاق اوراجتماعیت ہی کو اساسی درجہ حاصل ہے۔صدیوں کی نفرت،عداوت ودشمنی، اختلافات اور عناد کو ختم کرکے اسلام نے دلوں کو جوڑا اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ اسلامی سلطنتیں اتحاد پر قائم رہی اب جبکہ ہمارا ملک ہندوستان جہاں مختلف مذاہب اوربرادری کے اقوام پائے جاتے ہیں اور یہاںسیکولر قانون ہی ملک کا قانون ہے، مگراس قانون کوتبدیل کیا جارہاہے اور کامن سول کوڈ اور یکساں سول کوڈ کی بات کی جارہی ہے بلکہ دوریاستوں میں اس کا نفاذ بھی ہوچکا ہے۔ موجودہ صورت حال میں سب سے بڑا مسئلہ جس کو ملکی سطح پر اُچھالا جارہا ہے وہ ہے ذات برادری اورکاسٹ کی بنیاد پر فرقہ پرستی کو ہوادی جارہی ہے اورانڈیا میں ہزاروں برادریوں اور ذاتوں کے ماننے والے سیکولر اقوام کو صرف ہندو مسلم کے الگ الگ ہتھکنڈے استعمال کرکے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر کھلے عام ظلم تشدد،حق تلفیاں، ہجومی تشدد،یکطرفہ کارروائی کے ذریعہ مسلمانوں کی املاک، دکانات، مکانات اورمساجد کو بلڈوزر اورفرقہ پرست کے آلہ کار قاتلوں اور فسادیوں کے ذریعہ پورے ملک میں مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کیاجارہاہے جس کا حالیہ ثبوت جینور آصف آباد میں مسلمانوں پریکطرفہ قتل وفسادات ہوئے ۔ کوئی دن کوئی ریاست ایسی نہیں جہاں کمزور مسلمانوں پر ظلم نہ ہورہا ہو۔ حکومت، قانون، پولیس سب بے بس ہے۔ دوسری طرف امت کی اکثریت، علماء ودانشور قائدین کاطبقہ مجبور محض تقاریر،مضامین، کانفرنس، احتجاج کی حد تک محدود ہے۔ عامۃ المسلمین روزی روٹی کی فکر میں پریشان،انتشار،عصبیت، آپسی دشمنیوں اورانتقام، فضول خرچی، نوجوان بے راہ روی، آواراہ گردی، نشہ ،سگریٹ، گٹکھا اور سوشل میڈیا کی بے ہودہ سائٹس اورمنکرات وفحش میں مصروف ہے۔ گھروں میں بے دینی، جھگڑے، رسومات وخرافات بلکہ اکثریت شرک،بدعات میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مسجد یں ویران، مارکیٹ،بازار،خریداری، کھانا پینا اور دولت کو لٹانے میں ہوٹلس دکانیں بھری ہوئی نظرآتی ہیں۔
موجودہ مقامی،ریاستی اور ملکی سطح پر مسلمانان ہند کا لائحہ عمل اورایجنڈا کیا ہوناہے؟
مسلمان سب سے پہلے اپنے اندرایمان وتقوی کوپیدا کریں اور کتاب وسنت کولازم پکڑیں۔ اپنے عقیدہ کی اصلاح کریں ،ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچیں، شرعی علم سیکھیں، اولاد کو دین و شریعت سے واقف کروائیں۔ غفلت، لاپروائی، سستی، عیش وآرام ،فضول خرچی اور اسراف ختم کرکےزندگی کو بامقصدبنائیں، ایک دوسرے کا احترام کریں،اپنے آپ کو کنٹرول کریں۔ہر ایک اپنا محاسبہ کریں۔مسلمان فرقہ بندی سےبہت نقصان اٹھاچکے ہیں کم از کم ان حالات میں ایک ہوجائیں کیوں کہ سارے مسلمان درحقیقت ایک ہی امت ہیں کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اورآخری نبی خاتم الانبیاء کے اسوہ، آپ کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے لازم کرلیں،اسی میں اتحاد اور نجات ہے۔ اگر مسلکوں اور گروہوں میں رہ کر کتاب وسنت کو چھوڑدوگے تو پھر تم کمزور ہوجاؤگے اور صحیح راستہ صراط مستقیم سے بھٹک جاؤگے(سورۃ الانعام 153) امت کاالمیہ یہ ہے کہ تعلیمی، معاشی،اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزورہے۔ مذہبی فرقہ بندی کے نام پر مزید کمزور کیاجارہا ہے اور یہ چند فرقہ پرست نام نہاد لوگ ہیں۔ امت ایک طاقت ہے اورباہمی اخوت واتحاد سے مضبوط ہوتی ہے۔ یہی ہماری اصل ہے،لیکن ہم نے مسلک اور فرقہ وگروہ بندی کواصل سمجھ لیا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے واعتصموا بحبل اللہ جمیعاولاتفرقوا (آل عمران) فرمایا تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں بٹ نہ جاؤ۔ فرقہ پرستی کا مرض بہت خطرناک ہے ۔اسی مرض نے ملت اسلامیہ کو ہرمیدان میں ناکام کردیا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کی اس کمزوری سے خوب فائدہ اٹھایااورمسلم جماعتوں، تنظیموں اور گروپوں کوایسے بے بنیاد، بے مقصد فروعی مسائل اورتنازعات میں الجھائے رکھا کہ مسلمان ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہیں۔ ملی،تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں ترقی نہ کرسکیں۔فرقہ پرستوں کی سازشوں کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ہم نے سنجیدگی اورمنصوبہ بندی سے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا، ہم نے یاتو شکوہ کیا اورکبھی احتجاج ونعرہ بازی کواپنا وطیرہ بنالیا اور غفلت وبے حسی کا شکار ہوگئے یا پھر جذبات سے کھیلنے والے سیاسی قائدین یابھڑکاؤبھاشن دینے والے جوشیلے مقرروں کی واہ واہ کرتے رہے۔ ہم پر کیا مصیبتیں اور بلائیں نازل ہورہی ہیں اور یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ہمیں کیاکرناہے؟ اس کا نہ شعور ہے اورنہ احساس، بس دعاء ہے رب العالمین سے
احساس عنایت کر آثار مصیبت کا
امروز کی سورش میں اندیشہ فردا دے
ہماری اکثریت کونہ اپنے ایمان کے تحفظ کی فکر ہے اورنہ اسلام کی جبکہ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ بقول شاعر
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
دراصل بات یہ ہے کہ جہاں تک میرا احساس ہے امت اپنے ایمان وتشخص کے ساتھ اپناوجود اپنی زندگی کھوچکی ہے بظاہر جسم میں جان ہے کچھ حرکت ہے مگرروح مردہ ہے۔
تیری بے بسی کا گلہ نہیں تیری بے حسی کا تو ہے گلہ
تو زوال کو جو سمجھ سکے تو اسی میں تیرا کمال ہے
امت مسلمہ کی داخلی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ تعلیمی تناسب 2فیصد سے زیادہ نہیں۔ بڑی تعدادتعلیم کے آخری مرحلے تک پہنچتے پہنچتے تعلیم سے متنفر ہوکر کسی نہ کسی مشغلہ اور چھوٹے موٹے کاروبار یا نوکری سے لگ جاتی ہے۔ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے اکثر طلبہ مسجد،مدرسہ یا ٹیوشن تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بڑی تعداد دین سے ناآشنا اور اسلامی حمیت اور ملی غیرت سے محروم ہے۔ مسلمانوں میں فرقہ بندی اورمسلکوں کی بہت بڑی مصیبت ہے جس کی وجہ سے ملت منتشر اورٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ سوچنے اور غورکرنے کی بات ہے ہمارایہ اختلاف اورمسلکی جھگڑا مسجدوں، جلسوں اور دینی اجتماعات کی حد تک ہے باقی دنیوںامور میں تمام متحد ہے۔ بازارمیں،شادی بیاہ میں،لین دین میں، رشوت،سودخوری، دھوکہ دہی اور ہنگامی حالات میں یکجا ہیں اس کے باوجود فرقہ اور مسلک پر کوئی حرف نہیں آتا،لیکن جہاں دین کی بات چھڑتی ہے تو اختلاف شروع ہوکر مخالفت بلکہ تکفیر وتفسیق بلکہ جہنمی و دوزخی ہونے کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں جبکہ ہمیں اسلام کی بنیادی تعلیم یہ دی گئی کہ ہم کلمہ توحید، نماز،روزہ، زکوۃ ،حج میں ایک ہیں اختلاف ،تنازعہ اورجھگڑا کہاں ہے……؟چھوٹے چھوٹے مسائل اور فروعی باتوں میں ہاں یہ اختلاف علمی بنیاد پر اصلاح کے ارادے سے ہوتو بجا ہے۔ عقیدہ توحید سے لے کر تمام عبادات واعمال میں یہی درس اور تعلیم دی گئی کہ تم اللہ او ررسولؐ کی اطاعت کرومخالفت اور جھگڑے مت کرو تم کمزور ہوجاؤگے اورتمہاری ہوا اکھڑجائے گی۔(الانفال 46) مسلمانوں میں مسلکوں اورپارٹیوں کی بنیاد پر بہت ساری قیادتیں ہیں لیکن من حیث الامت ایک اجتماعی قیادت کی ضرورت ہے۔ امت کے اتحادی اجتماعی طاقت سے ہی موجودہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔قرآن وحدیث دین کے دوبنیادی ستون ہیں اور یہی وہ مضبوط مستحکم اور سیدھاراستہ ہے، جس کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتباع کرنے کی تلقین کی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ سورۃ الانعام (153) اورجولو گ اس پیغام اور دعوت کو سمجھ کر قبول کرتے ہیں وہ ایک امت بنتے ہیں اور اسی امت کودوسری تمام اقوام پر فوقیت دے کر خیرامت بنایاگیا۔ کنتم خیراامۃٍ اُخرجت للناس (آل عمران 110)ملت اسلامیہ کا ہرفرد اپنی کمزوری، انتشار واختلاف کا سبب تلاش کرے اور انفرادیت کواجتماعیت میں ضم کردیں کیوں کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
امت کے ذی شعور، اہل علم دانشورحضرات سرجوڑ کر بیٹھیں اور مذکورہ امورپر غوروفکر تبادلہ خیال کرتے ہوئے لائحہ عمل ترتیب دیں۔ سب سے پہلے ایمان باللہ کے سبق کو پڑھیں سمجھیں اور اس کی تجدید کریں، الگ الگ رہنے کے بجائے سب سے مل کر سب کے اتحاد و مشورے سے کام کریں اس میں بڑی طاقت بھی ہے اوربرکت بھی ،کیوں کہ رسول اللہ نے فرمایا’’ یداللہ علی الجماعۃ ‘‘ اجتماعیت پر اللہ کی مدد ہے۔ مذہب پسندافراد اور مختلف طبقات والے لوگوں سے اپنے روابط مضبوط کریں ان کی غلط فہمیوں کو دورکریں۔ خواب غفلت سے بیدارہوجائیں، کیوں کہ غافلوں کی اللہ تعالیٰ مدد نہیں کرتاجو اللہ کے ذکر اس کی عبادت اوراطاعت سے دورہیں وہ غافل ہیں اوریہی لوگ مردہ ہیں اور جوشعور،ادراک و احساس رکھتے ہیں، اللہ کا ذکر ،آخرت کی فکر اور تیاری کرتے ہیں وہ زندہ ہیں۔ قرآن کریم ہدایت اورانقلاب تغیر تبدیلی پیدا کرنے والی کتاب ہے اوریہ زندہ کتاب زندہ قوم اور امت کے لئے ہے۔ دیکھئے سورہ یٰسین آیت نمبر 70، یہ کتاب ہدایت اور یاددہانی کرانے والی ہے، ان کوجو زندہ ہیں جو اس کو پڑھتے ہیں ،سمجھتے ہیں اور اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں۔الذین آتیناھم الکتاب یتلونہ حق تلاوۃ ۔
مسلکی و جماعتی مسائل اورجھگڑوں کو اپنی حد تک ہی رکھیں۔ملی، قومی اور ملکی مسائل میں متحد ومنظم اورایک موقف بنائیں۔
اپنے قول وعمل سے اسلام کے سچے ترجمان بنیں کیوں کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے دوسری قوموں کے لئے نمونہ اور مثال بنایا۔
مکہ ومدینہ کے انصار ومہاجرین کی طرح ایک دوسرے کے خیرخواہ اوراپنے دینی وایمانی بھائیوں کے لئے ایثار و قربانی سے کام لیں تاکہ ہم فرقہ پرستوں کے مقابلہ میںبنیان مرصوص سیسہ پلائی دیوار بن کرکھڑے ہوں۔
امت مسلمہ کی کمزوری ،ناکامی ،زوال اورپستی کے اسباب اورعلاج
جب ہم امت مسلمہ کے زوال اورکمزوری کے اسباب تلاش کرتے ہیںتو پتہ چلتا ہے کہ امت کی اکثریت دین سے دور،مقصد زندگی سے غافل ہے نیز ان میں امت وحدہ میں ہونے کاتصور بھی ختم ہوچکا ہے اوروہ مختلف طبقوں، گروہوں، ٹولیوں، گروپوں اور مسلکوں میں تقسیم ہوکر عملی اتحاد سے کمزور اورناکام ہے جبکہ امت کو حدیث میں جسد واحد ایک جسم کہا گیا اور مومن مومن کے لئے آئینہ اور مضبوط دیوار بتایا گیا۔ایک نظر ہم اپنے ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو درپیش خطرات، مشکلات، مسائل اور چیلنجز سے بھرے ہوئے پاتے ہیں۔سب سے پہلے مسلمانوں کے اپنے مسائل اورخطرات میں بے دینی، بے عملی کا عام ہونا ہے۔ مغربی کلچر نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ والدین ذمہ داری سے غافل اور بے حس اوربے بس ہوگئے ہیں۔ اساتذہ ٹیچرس کی اکثریت ذمہ داریوں سے لاپرواہ ہے۔ فتنہ ارتداد کا بڑھتا ہوا رجحان بھی بہت تشویش نا ک ہے۔ مسلم لڑکیوںاور لڑکوں کی غیرمسلموں سے شادیاں جوکہ حرام ہے ۔ اسی طرح لوجہاد کے فتنہ نے بہت سارے نوجوانوں کو مرتد کردیا ہے۔ مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتیں ختم ہوچکی۔ قانون صرف مسلمانوں کے لئے اور ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے بے بنیاد مقدمات اور کیس میں پھنسایاجارہا ہے، ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے انصاف ،حقوق اورعدالت برائے نام ہے۔ مسلم اوقافی جائیدادوں کو ہڑپنے کے لئے نئے نئے غیردستوری قوانین بنائے جارہے ہیں۔بھولے بھالے مسلمان اور سرپھرے نوجوان دھوکہ باز مفادپرست سیاسی قائدین اور نام نہاد ملاؤں کے شکنجے میں ہیں۔ سیکولر کی نئی اصطلاح گھڑ کر یکساں سول سیکولر کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔عبادت گاہوں اور مدارس کی مسماری عام بات ہوگئی ہے، مت میں فکری جمود وتعطل بڑھ گیا ہے،جذباتیت عجلت پسندی نے بھی مسائل کو خراب کردیا ہے۔ نوجوانوں کی تربیت او ران کی اصلاح اور ان کے مسائل پر کوئی فکر کرنے والا نہیں، مالدار اوردولت مند طبقہ میں اسراف، فضول خرچی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ نوجوانوں میں گٹکھا،شراب نوشی، سگریٹ اورمنشیات کا چلن معمول بن گیا۔دینی مزاج رکھنے والوں میں شبہات اور بداخلاق افراد میں شہوات کے فتنے بڑھتے جارہے ہیں۔ اندرونی طور پر آپس میں تکفیری او رخوارج کے فتنے ،چہرے اورغاصب کے فتنے،عہدے اور مناصب پراپرٹی کے فتنے، عورتوں کے فتنے، جہیز،جوڑے گھوڑے کے فتنے، بے حجابی اور عریانیت کے فتنے، بدعات خرافات، رسومات کے فتنے،مخلوط نظام تعلیم کے فتنے، بدزبانی کے فتنے،فیشن پرستی،سماجی ، معاشرتی اور خاندانی وعائلی مسائل کے فتنے وغیرہ۔
(جاری)
One thought on “موجودہ حالات میں امت کا ایجنڈا”