آج پوری دنیا میں ظلم و ستم کی جو گرم بازاری ہے وہ نئی نہیں ہے،ہر دور میں یہ گرم بازاری رہی ہے اور اس قدر رہی ہے کہ انبیائے کرام اور مصلحین کو قتل کرنے تک سے لوگ باز نہیں آئے،ہردور میں ظلم کے خلاف کچھ لوگوں کے کھڑے ہونے کی روایت بھی قدیم ہے، مکی دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ظلم ڈھائے گئے اس کا ایک طویل سلسلہ ہے، کعبۃ اللہ میں طواف سے روکنا،جسم اطہر پر پتھر برسانا،خون میں لہولہان کرنا اور شعب ابی طالب میں قید کرنا یہ سب کفارمکہ کے ذریعہ کئے گئے ظلم و ستم کے جلی عنوان ہیں۔
ظلم عدل کی ضد ہے، ظلم کے معنی زیادتی اور بے جگہ چیزوں کے رکھنے کے ہیں، انصاف کے خلاف کئے جانے والے سارے کام ظلم کے دائرے میں آتے ہیں، ظالم کا ساتھ دینا اور ظلم پر خاموش رہنا بھی بعض اعتبار سے ظلم ہی ہے۔
اللہ رب العزت کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا یہ سب سے بڑا ظلم ہے، اسے اللہ نے ظلم عظیم قرار دیا ہے ”اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ“ مغفرت کی گنجائش ایسے لوگوں کے لئے نہیں ہے، ارشاد فرمایا”اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُمَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَاء“اللہ تعالی اس کی مغفرت نہیں کرتا جس نے اس کے ساتھ شرک کیا، اس کے علاوہ جتنے گناہ ہیں اللہ چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا، قرآن کریم میں اللہ رب العزت پر افترا اور جھوٹ کا تذکرہ بار بار آیا ہے اور اسے بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے،ہر دور میں انبیاء کرام نے اس ظلم کو دور کرنے کے لیے آواز یں بلند کیں،اس ظلم کے ختم کرنے کا جو نبوی طریقہ ہے وہ دعوت کے میدان میں سرگرم عمل ہونا ہے، ہماری جدو جہد کے بہت سے مراکز ہیں،لیکن دعوت دین کا کام جس بڑے پیمانے پر ہمیں کرنا چاہیے تھا ہم نہیں کر سکے اور دھیرے دھیرے اس سے غافل ہو کر رہ گئے ہیں، ہمیں ہر وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، ایک طبقہ نے اس دعوت کو قبول کر لیا اور وہ امت اجابت کے زمرے میں داخل ہوگئی، دوسرے نے قبول نہیں کیا،یہ امت دعوت ہے اور ان تک اللہ کا کلمہ پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، دعوت کے کاموں کے لئے جو اصول و ضوابط قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، ان کی رعایت بھی ضروری ہے،اسوہ نبوی کے مطابق دعوت کا کام نہیں کیا گیا تو روئے زمین سے اس بڑے ظلم کا خاتمہ نہ ہو سکے گا۔
ظلم کی دوسری قسم گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنی ذات پر ظلم کرنا ہے، ظلم کی اس قسم کوآپ حقوق اللہ میں کمی کوتاہی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے”وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَاللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ“ جس نے اللہ کے حدود کو توڑا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مساجد میں جانے سے روکنا، اللہ کی آیات کو جھٹلانا اسی قبیل سے ظلم ہے، اس ظلم کو دور کرنے کا نبوی طریقہ یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا جائے اور معصیت کے ارتکاب سے پورے طور پر اجتناب کیا جائے،اس سلسلے میں سیرت اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے ان کے اسوۃکے مطابق زندگی گزارنا ہی اصل ہے، اس ظلم کو دور کرنے کے لیے انسان کو تزکیہ نفس پر توجہ کی ضرورت ہے،جس قدر تزکیہ ہو گا اسی قدر اس دوسرے قسم کے ظلم سے بچنا ممکن ہو سکے گا،بلکہ جب تزکیہ کامل ہوگا تو گناہوں کی طرف طبیعت مائل ہی نہیں ہوگی، اللہ تعالی کا ارشاد ہے”قَدْ أفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا“بیشک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیااور بیشک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا۔
ظلم کی تیسری قسم حقوق العباد میں کمی کوتاہی ہے،کسی کا مال ہڑپ کرلینا، کسی کو ستانا،مزدور کو وقت پر اجرت نہ دینا، قرض کی ادائیگی میں وسعت کے باوجود ٹال مٹول کرنا،اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کو غلام بنانا، گواہی سے انکار کرنااور حقیقت واقعہ سے واقفیت کے باوجود اسے چھپا لینا، ان سب کا تعلق تیسری قسم کے ظلم سے ہے،یہ معاملہ بڑا سنگین ہے، مسلم شریف میں ایک روایت”باب تحریم الظلم“کے ذیل میں درج ہے،اس میں فرمایا گیا کہ قیامت کے دن امت کا مفلس ترین وہ انسان ہوگا جس نے حقوق اللہ میں کوتاہی نہیں کی ہوگی، لیکن حقوق العباد میں ظلم کو راہ دیا ہوگا، اس دن اس کے سارے نیک اعمال کا ثواب مظلوموں کے کھاتے میں چلا جائے گا اور نیکی برباد گناہ لازم آئے گا،ظلم کے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی جامع حدیث بخاری شریف میں آئی ہے ”اُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِماً اَوْ مَظْلُوْماً“اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم،اس حدیث میں ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کے لئے کہا گیا ہے،ظالم کی مدد تو یہ ہے کہ اس کی کلائی پکڑلی جائے کہ وہ ظلم سے باز آ جائے، موجودہ دور میں اس سے مراد وہ تمام جائز طریقے ہیں،جن کا سہارا لے کر ظلم سے روکا جا سکتا ہو، مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ ہونے دیا جائے اور ہر ممکن طور پر اس کی حمایت اور دفاع میں آگے آیاجائے تاکہ ظالم کی ہمت اور کمر ٹوٹ جائے۔
مکی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ظلم کے خلاف صبر و برداشت کا تھا،یہ صبر و برداشت غیر معمولی ہوا کرتا تھا، اُن ممالک میں جہاں مسلمان مکی دور سے گزر رہے ہوں،ظلم کے دفاع کا یہ بھی ایک طریقہ ہے،ایک طریقہ ہم خیال لوگوں کو ساتھ لے کرظلم کے خلاف محاذ بنانے کا ہے، قبل نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوئے تھے جو ایک صاحب کے مالی حقوق دلانے کے لئے ہوا تھا،یہ مکہ کے چند نوجوانوں کی تحریک تھی، جس نے بہت سارے ظلم کو ختم کرنے کا کام کیا تھا، یہ معاہدہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ اونٹنی سے زیادہ پسند تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج بھی اگر کوئی اس قسم کے معاہدہ کے لیے ہمیں بلائے گا تو میں حاضر ہوں،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے دفاع اور مظلوموں کی حمایت کا نبوی طریقہ یہ بھی ہے کہ کمزور اقوام و ملل مل کر ظلم کے دفاع کے لیے متحدہ اور مشترکہ ایجنڈے پراٹھ کھڑے ہوں تاکہ وہ ظالم طاقتوں کا مقابلہ کرسکیں۔
مظلوموں کی حمایت کا دوسرا طریقہ میثاق مدینہ ہے،جو ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بقائے باہم کے اصول پر کیا تھا،یہ میثاق بھی ظلم کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ہے، اس قسم کا کوئی معاہدہ جو آج کے جمہوری دور میں بقائے باہم کے اصول پر مبنی ہو، ظلم کے دفاع کیلئے نبوی طریقہئ کار کے عین مطابق ہے۔
ظلم کی دفاع کے طریقے زمان و مکان کے اعتبار سے بدل سکتے ہیں، ہندوستان میں سی اے اے، این سی آر این پی آر اور اوقاف کو بحق سرکار ضبط کرنے کے حوالے سے شہریوں کو پریشان کرنا، بنیادی حقوق سے محروم رکھنا یا محروم کرنے کی کوشش کرنا بھی ظلم کے دائرے میں آتا ہے،اس کے دفاع کے لئے ہندوستان میں احتجاج مظاہرے اور دھرنوں کا طویل اور تاریخی سلسلہ شروع ہوا تھا اور ملک کی بڑی آبادی احتجاج کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے اوقاف کے تحفظ کے لیے احتجاج اور جیل بھرو تحریک کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔ممکن ہے اس کی نوبت آجائے احتجاج اور مظاہرے عالمی طور پر ناانصافیوں کو ختم کرنے میں مؤثر رول ادا کرتے ہیں اور حکمراں جماعت اسی زبان کو سنتی اور سمجھتی ہے، اس لئے ظلم کی دفاع میں پوری دنیا میں اس کو مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، البتہ اسلام مظلوموں کی حمایت اور ظلم کے دفاع کیلئے کسی بھی ایسے کام کو پسند نہیں کرتا جس سے اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا لازم آتا ہو، ارشاد خداوندی ہے”وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ“ اس ممانعت کا حاصل یہ ہے خود سوزی اور اس طرح کے دوسرے کام جس سے اپنی اور غیر متعلق لوگوں کی جان و مال کا نقصان پہونچے اس کی حمایت نہیں کی جا نی چاہئے،اسلام میں ظلم کے دفاع کے لیے بھی حدود و قیود مقرر ہیں اور ہم اس کی خلاف ورزی کر کے ظلم کے دفاع کا کام نہیں کر سکتے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ظلم کی الگ الگ قسموں کے دفاع کے لئے اسوہ رسول اکرم میں الگ الگ نمونے موجود ہیں،ان کو برت کر ہم اس دنیا کو ظلم وستم سے پا ک کر سکتے ہیں،اس معاملہ میں شرک سے پاک سماج کو بنیادی حیثیت حاصل ہے،رب مانی کا مزاج بنتا ہے تومن مانی ختم ہوتی ہے،اور انسان خدائی احکام اور نبوی ہدایات کا خوگر ہو کر ہر قسم کے ظلم کا خاتمہ کر سکتا ہے،قانون الٰہی کی پابندی اورمنکرات سے اجتناب ظلم کے دفاع میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے
تحریر: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ