ہندوستانی مسلمانوں کی بقا و تحفظ دعوت میں مُضمر

دعوت اِلی اللہ کا فریضہ مسلمانانِ ہند کا فرض منصبی اور مقصد حیات ہے۔یہ وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مسلمان اپنے ملی وجود و تشخص کی حفاظت کرسکتے ہیں۔جب کبھی اُمتِ مسلمہ نے اس فریضہ سے غفلت برتی اس کا خمیازہ اور نقصان مختلف شکلوں میں اٹھانا پڑا۔ اس حقیقت کی سب سے بڑی شہادت اُندلس کی تاریخ ہے، جہاں مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء اور دانشوران تھے، لیکن انہوں نے دعوت کا کام بند کردیاتھا۔ہندوستان کی مسلم تنظیمیں اور جماعتیں جو مسلمانوں بلکہ اپنے ہی دائرہ اور حدود میں اصلاح و تدکیر کا کام انجام دے رہے ہیںکچھ حد تک توٹھیک ہے،لیکن ایک بڑی ذمہ داری برادران وطن تک ان کی اپنی زبان اور مزاج وماحول میں دعوت حق پہنچانے کی ہے اس سے غافل ہیں۔ غیر مسلموں تک حق کی دعوت پہنچانے کا کام اس قدر اہم ہے کہ کوئی دوسرا کام اس مشن کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔ اس عظیم کام کے سلسلہ میں بے حسی اور بے شعوری کی وجہ سے مسلمان بالخصوص اہل علم، علماء کا طبقہ دعوتی مزاج سے اوجھل بلکہ غافل ہوگیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک طرف تو ہندوتو کا چیلنج ہےاور دوسری طرف مغرب کا فکری اور تہذیبی چیلنج ہے اوریہ عالمی پیمانے پر ہے۔پہلے چیلنج کا جواب نہ دیا گیا تو مشرکانہ رسوم اور مشرکانہ نظام پورے معاشرے اور ملک پر پھیلنے اور مسلط ہونے کے خطرات ہیں اور دوسرے چیلنج کا جواب نہ دیا گیا تو الحاد، بے دینی اور فحش و عریانیت پھیلنے اور عذاب الٰہی کے خطرے ہیں۔

دور حاضر میں داعیانہ ذہن اور مشن رکھنے والے احباب کو چاہئے کہ وہ اپنے تعلقات کے دائرہ میں غیر مسلموں سے دعوتی روابط قائم کریں اور اسلام کا تعارف پیش کریں۔ دعوت کے کام کی فکر رکھنے والوں کے یہ افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں رابطہ عامہ کا خلا ہے۔ دراصل ان دعوتی سرگرمیوں کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔(i) دعوتی جدبہ (ii) دعوت کا طریقہ اور سلیقہ (iii)دعوتی وسائل و امکانات۔
دعوتی کام کے لئے ایک داعی میں اعلیٰ اخلاق کی سخت ضرورت ہے۔ دماغ سے زیادہ دلوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت ہے۔داعی بے لوث اور سارے مدعو کا ہمدرد اور خیرخواہ ہوتاہے۔ وہ مدعو کے مرض سے دشمنی رکھتا ہے مریض سےنہیں۔ داعئ اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کریم نے گواہی دی۔ و انک لعلی خلق عظیم  یقینا آپؐ اخلاق کے عظیم مقام ومرتبہ پر فائز ہیں۔اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری اورعالمگیر پیغام ہے۔ دنیاو آخرت دونوں کی کامیابی کی ضمانت اسی دین فطرت کو اپنانے میں ہے۔یہ کسی خاص ملک اور قوم کا دین نہیں یہ پوری انسانیت کا نجات دہندہ ہے(سورۃ الاعراف 158) مسلمانوں کا اصل کام اسلام کے خالص پیغام توحید کو دلوں میں جاگزیں کرنا ہے اور دلوں کو جبر و تشدد سے نہیں اخلاق سے متاثر کیاجاسکتاہے۔اسی لئے اسلام کی اولین صفت ہے۔ لا اکراہ فی الدین    دین میں زور زبردستی نہیں۔
دعوت کا کام مسلمانوں کی تمام تنظیموں اور جماعتوں اور اداروں کی جانب سے انجام دیناچاہئے،البتہ اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کے لئے مخصوص طبقہ اورجماعت ہو جس کا اوڑھنا بچھونا دعوت بن جائے۔ وہ ہر دم، ہر لمحہ، ہمہ تن، ہمہ گوش بس اسی فکرمیں رہے کہ اللہ کے بندوں کو جہنم کے راستے سے بچائیں کیوں کہ شرک اور بت پرستی سے جہنم واجب ہوجاتی ہے۔ ہر مسلمانوں کی دمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائے (سورۃ التحریم)خاتم المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل غمگین رہتے، ہمیشہ فکرمندرہتے، آپ کو راحت وآرام نہ تھا۔ بہت دیر تک خاموشی اختیار فرماتے اور بے ضرورت نہ بولتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
ہندوستان کی سوا کروڑ آبادی تک آواز حق اور فطری دین پہنچانا کسی ایک ادارہ اور تنظیم کے بس کی بات نہیں۔ اس وقت ملک کے ہزاروں ادارے اور تنظیمیں اپنی اپنی جگہ پرملت اسلامیہ کی اصلاحی و دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہر ادارہ وتنظیم دعوت کا شعبہ عملاً قائم کرکے میدان عمل میں قدم اٹھائے، غیرمسلموں کے ساتھ ہمدردانہ روابط،حسن سلوک، مناسب موقع پر ان کی زبان میں قرآن کریم، سیرت طیبہ اور توحید، رسالت و آخرت پر مبنی فولڈرس اور کتابیں تحفہ دیں۔ ان کے شکوک وشبہات کا ازالہ کریں،دعوت کے کام میں ہر فرد بقدر استطاعت حصہ لےسکتاہے۔ پڑھے لکھے، عالم فاضل حضرات کےعلاوہ کاروباری،تاجرین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے اپنے اپنے میدان میں دعوت کے مواقع ڈھونڈیں۔ مالدار طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کار دعوت میں اپنا مال خر چ کریں۔ دعاۃ کے تقرر، دعوتی کتب کی اشاعت، تالیف قلب کے لئے نومسلموں کی امداد اوران کے معاشی ،تعلیمی اور دیگر مسائل میں تعاون کرکےعنداللہ ماجور ہوسکتے ہیںمسلمان بحیثیت خیر امت ان کا کام ہی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔

ہمارے اس ملک ہندوستان کی سالمیت،تحفظ وبقاء کے لئے اور خود مسلمانوں کی سلامتی، تحفظ اور بقاء کے لئے شریعت اور دین کی روشنی میں جو لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکتا ہے اس کی تین بنیادیں ہیں۔ بقول پروفیسر محسن عثمانی
(1) تمام غیرمسلموں کے ساتھ عمومی طور پر اور پسماندہ طبقات کے ساتھ خصوصی طور پر مسلمانوں کے خوشگوار روابط اور تعلقات ۔
(2)ہر ایک غیر مسلم تک دین حق کی روشنی پہنچانے کا کام۔
(3)اپنی افادیت و صلاحیت کا سکہ قائم کرنا۔
ہر دن ہر روزاپنا محاسبہ کرناچاہئے تاکہ دعوتی کام صحیح ڈھنگ سے انجام پائے۔

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

جدید دور میں ماڈرن ارتداد قدیم ارتداد سے زیادہ خطرناک ہے۔پہلے کوئی مرتد ہوتا تھا تو وہ مسلم سماج سے کٹ جاتا تھا،لیکن اب علانیہ مرتد بھی ہیں اور مسلم طبقہ میں مل جل کر زندگی گزاررہے ہیں بلکہ بڑی بڑی جامعات اور یونیورسٹیز میں ادب و تاریخ کے ماہرین اساتذہ ہیں جو فکری انحراف مستشرقین سے زیادہ مسموم اورزہریلے ہیں۔اس ملک میں مسلمانوں کے روشن مستقبل کا دارومدار زیادہ طور پر دعوت اور اسلام کے تعارف پر ہے۔ کے یہاں کے دینی مدارس وجامعات میں دعوت کو بطور نصاب شامل کیا جائے اور نصاب تعلیم کو زمین وزمان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ شعبہ دعوت کا قیام اور انگریزی زبان کی تعلیم کا انتظام بھی ضروری ہے۔ دوسری بہت سی غیر ضروری کتابوںکو حذف کرکے نئے مضامین جو وقت اور حالات کا تقاضہ کرتے ہیںشامل نصاب کیاجائے۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ اور فلسفہ پر ناقدانہ نظر ہو، ہر مدرسہ اور مسلم انتظامیہ اسکول وکالجزمیں دین کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ شعبہ دعوت کا قیام دراصل ہمارے ملک کے درخشاں مستقبل اور انقلاب کی ابتدا ہے۔ ہمارے پیش نظر یہ بات رہے کہ ان اداروں اور شعبوں کا مقصد اولین دعوت کا کام ہوناچاہئے نفرت، دشمنی، تنگ نظری نہیں اوریہ کام ہم حسن اخلاق اور خدمت خلق کے ذریعہ ہی انجام دے سکتے ہیں۔
دعوت کے علمی و عملی اصول بھی ہر داعی کے پیش نظر ہوناچاہئے۔ہمارا سب سے بڑا سب سے اہم اور سب سے اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ انسانیت کو نارجہنم سے بچانے کی فکر ہر وقت دامن گیر ہو اور اس فکر میں اتنے مضبوط اور مخلص ہوں کہ ہمارے رب نے جس طرح داعیٔ اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا۔فلعلک باخعٌ نفسک علی آثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسقا (سورۃ الکہف)  ایسا جذبہ اوران کے ساتھ ایسی ہمدردی جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں چیونٹی سے دی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں ایک حقیر سی مخلوق نے پوری قوم کو تباہی و بربادی سے بچانے کی فکر کی تھی۔ کاش ہمارے اندر ایسا جذبہ، ہمدردی و انسانیت پیدا ہوجائے۔

ہمارا اصل کام اور مشن کیا ہے؟ یہ معلوم ہوناچاہئے کہ ہم اپنے آپ کے لئے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کے لئے پیدا کئے گئے۔اخرجت للناس ، ہم اپنے لئے بہت فکرمند ہوتے ہیںاپنے گھر ،اپنی اولاد اور ان کے مستقبل کی فکر تو رہتی ہے مگر درحقیقت اپنی آخرت کیسی ہوگی کیا وہاں ہم کامیاب ہوں گے؟ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا تھا؟کیا ہم نے مقصد زندگی سمجھا اور اس کے مطابق کوشش کی؟ ہمارے اندر بزدلی، سستی، غفلت، لاپرواہی ، بے حسی، احساس کمتری اور بے شمار ذہنی اور قلبی بیماریاں ہیں۔ہمیں پہلے اپنی بیماری کو سمجھنا ہوگا پھر اس کی صحت کی فکر پھر پوری امت کی بیماری کی فکر۔
امت مسلمہ کی بعثت کامقصد:دعوت الی اللہ، امربالمعروف و نہی عن المنکر(سورہ آل عمران 110)اور اگر اس سے غفلت کریں گے تو انجام بھی بتایا گیاکہ تمہارے وجود کو ختم کردیاجائے گااور تمہاری کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔(سورہ محمد 38)
موجودہ سنگین اورخوف و ہراس کے عالم میں امت مسلمہ کی بقاء اور ان کا تحفظ انسانیت کو کفر و شرک کی ضلالت اور گمراہی سے نکال کر ایمان و اسلام کا تعارف اور مالک حقیقی سے روشناس کرانے میں ہے۔مسلمان اگر فریضہ دعوت اور اسلام سے عوام کو متعارف کرنے کاکام نہیں کرتے ہیں تو ظالم شمار ہوں گے کیوںکہ مسلمانوں کے پاس رب العالمین کی طرف سے ایک بڑی امانت قرآن کی شکل میں دی گئی ۔ اس امانت کو چھپانا اور اس سے خود بھی واقف نہ ہونا بہت بڑی گمراہی ضلالت اور ظلم ہے۔کیا کبھی بھولے سے بھی ہمارے دل ودماغ میں یہ بات آتی کہ برادران وطن کو اسلام سے واقف کروانا ہے؟ایمان والوں کے لئے روزانہ کا عمل دعوت کا مشغلہ ہوناچاہئے۔اس کو پارٹ ٹائم نہیں لائف ٹائم سمجھ کر کرنا ہے۔
مسلمانان ہند اگرغور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے اوپر بلکہ ہمارے ملک پر جو آفت اور مصیبت آئی ہے یہ دراصل عذاب الہٰی کی ایک شکل ہے یعنی امت کا انتشار اور فرقہ بندی، قرآن وسنت سے ظاہر ہے کہ عذاب الٰہی کبھی آسمان سے کبھی زمین سے اور کبھی آپس میں خلفشار اور لڑائی جھگڑے سے آتاہے۔ قرآن کریم ہی کا یہ نسخہ ہے کہ اب تک جس جرم اور خیانت کا ارتکاب ہم مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی کیا ہے وہ ہے کتمانِ حق، اب اس کو از سر نو عوام میں بیان کرنا، اپنی غلطیوں کی اصلاح اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا ہے۔ الاالذین تابوا واصلحوا و بینوا  دعوت کا موضوع اور عنوان دراصل بکھری امت کو جوڑنے کاایک ذریعہ بھی ہے۔ علماء کرام اور مسلم تنظیمیں اورجماعتیں مسلکوں کے خو ل سے باہر نکل کر اجتماعی اور انفرادی فریضہ دعوت پر متفق ہوجائیں اور دعوت سے مراد ایک اللہ کی عبادت یعنی توحید خالص کی طرف بلانا اور ان کو شرک و طاغوت پرستی سے بچانا ہے۔ کار دعوت کے لئے اس کا بنیادی علم اوراپنے عمل میںاخلاص و صالحیت، حق کی تلقین و تاکید اور صبر و استقامت لازم ہے۔ ہمیں یہ بھی جاننا چاہئے کہ ہر انسان کی فطرت توحید او راسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بچہ کو فطرت پر پیدا کیا۔ ماحول،والدین اس کو اپنے دین میں ڈھال لیتے ہیں۔ دعوت کے تین اہم شرائط ہیں۔ العلم قبل الدعوۃ، الحلم عند الدعوۃ، والصبر بعدالدعوۃ۔ دعوت دینے سے پہلے دعوتی علم، دوران دعوت حِلم اور دعوت دینے کے بعد صبر تحمل تعلق باللہ دعوت کی بنیادی شرط ہے جوقیام اللیل سے مضبوط ہوتی ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے دو میدان ہیں۔پہلا داخلی نوعیت کا میدان مسلمانوں کی دینی ،اخلاقی، تعلیمی، اقتصادی استحکام اوردستوری حقوق کا تحفظ۔ دوسرا میدان خارجی نوعیت کا ہے۔ برادران وطن سے تعلقات اور اسلام کا تعارف۔
معزز قارئین کرام ہمیں ہندوستان کی حیثیت اور نوعیت بھی سمجھنی ہے۔ اس کی شرعی حیثیت دراصل یہ ملک سماجی معاہدہ کا ملک ہے، جس کو ہم دارالدعوہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
دعوتی کام کے لئے بہت ساری رکاوٹیں ہیں۔ پہلی رکاوٹ خود مسلمان ہیں یعنی ان کی بے دینی اوربے عملی، جس سے غیر مسلموں کو حقیقی اسلام جاننے اور سمجھنے میں رکاوٹ ہے۔ وہ مسلمانوں کے غیر اسلامی تہواروں اور غیر شرعی عادات و رسومات کو ہی اسلام سمجھتے ہیں۔ دوسری رکاوٹ مسلمانوں کا غیر مسلموں سے خوف زدہ ہونا کہ اگرہم ان کو اسلام کے بارے میں بتائیں گے تو وہ ہم کو ماریں گے یا پریشان کریں گے یا ہماری توہین کریں گے وغیرہ وغیرہ۔

اور اسی طرح مسلمانوں کا یہ سمجھنا کہ ہم کو صرف مسلمانوں میں ہی دین کی بات کرنا ہے دوسروں میں نہیں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک اور رکاوٹ زبان کی ہے ہم ان کی زبان اور تہذیب سے بھی ناواقف ہیں۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کو ان کی قوم کی زبان میں مبعوث فرمایا۔ ہمار ان سے عدم تعلق یا رابطہ عامہ کا نہ ہونا بھی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت ساری رکاوٹیں ہیں جیسے ان کے ذہنوں میں اذان،کلمہ، جہاد، تَعدّدِ ازدِواج، حدود و تعزیرات کے قوانین، عورتوں کا حجاب وغیرہ۔ایک بات  جوہم مسلمانوں کو خوب شرح صدر کے ساتھ سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں حالات اگرچہ کہ ناسازگارہیں لیکن امکانات ابھی بھی باقی ہیں، ان سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے۔وسائل و ذرائع کا مناسب طور پر استعمال کرکے اسلام کے تعارف اور اس کی تشہیر کے لئے مواقع نکالنا چاہئے جتنا بھی ہوسکے زمینی سطح پر خاموشی کے ساتھ محنت ہونی چاہئے یعنی برادران وطن کو اسلام کی حقانیت ، اسلام کے نظام عدل و مساوات، اسلام کے محاسن، اسلام ساری انسانیت کا دین، ہر مشکل اور پریشانی کا حل اسلام ،جیسے موضوعات پر گفتگو ہونی چاہئے۔
دعوت کے لئے فکری و عملی ارتکاز اور نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ داعی کو اپنے دعوت پر بھرپور اعتماد، صد فیصد یقین ہوناچاہئے۔ مدعو کے نفسیات، مزاج، عقائد ونظریات سے بھی داعی کا واقف ہونا ضروری ہے۔دعوت کے کام کرنے والے ہمیشہ مدعو قوم کو غیر قوم نہ سمجھیں یہ ایک غلط تعبیر ہے۔ نبیوں نے مدعو قوم کو ہمیشہ یاقومی سے مخاطب کیا۔ ان سے اپنی نسبت جوڑی ہے۔ خود طائف کے سفر میں خاتم المرسلین نے دعا فرمائی۔ اللہم اھد قومی فانہم لایعلمون  اےاللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما کیوں کہ یہ مجھے نہیں جانتی۔ داعیان اسلام تمام مذاہب کا مطالعہ کریں، نیز ملک کی تمام اسلامی دینی تنظیمیں و تحریکیں ملک گیر سطح پر دعوت کو اپنا مطمح نظر اور مشن بنالے۔سب سے آخری بات جو مجھے تمام دردمند فکر مند اور ہوش مند مسلمانوں سے کہنا ہے وہ ہے دعوت وتبلیغ کے فریضہ کی ادائیگی میں ہماری بقاء اور تحفظ مضمر ہے۔ اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایااے رسول آپ تبلیغ کیجئے جوہم نے آپ پر نازل فرمائی ہے اور اگر آپ نے یہ فریضہ انجام نہ دیا تو درحقیقت آپ نے اپنا فرض منصبی ادا نہ کیا اوریاد رکھیں اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں کے شر اور فتنہ سے حفاظت فرمائے گا۔ یہ ہے بشارت تمام داعیان اسلام کے لئے لہٰذا۔

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں ترے دور کا آغاز ہے

ازقلم: ڈاکٹر سید آصف عمری، حیدرآباد
موبائل نمبر:9885650216

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے