موجودہ مسائل سیاسی ہیں اور ان کا تعلق حکومت سے ہے ، ان کے حل کے لئے آئین اور شریعت کے حدود کی رعایت کرتے ہوئے حکومت سے بات کرنے کی کوشش کی جائے، موجودہ وقت میں یہی حکمت عملی مناسب ہے


موجودہ وقت میں مسلم امہ طرح طرح کی دقتوں میں مبتلا ہے ، روزانہ نئے نئے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں ، جس کی وجہ مسلمان پریشانیوں سے دو چار ہوتے جارہے ہیں ، گزشتہ ایک دہائی میں لو جہاد ، موب لنچنگ ، مدارسِ پر دہشت گردی کے الزامات ، مساجد کے نیچے مندر کا شوشہ اور اب اوقات ترمیمی بل لاکر پوری ملت کو الجھا دیا گیا ہے ، مذکورہ بالا تمام مسائل میں جہاں فرقہ پرست طاقتوں کا ہاتھ ہے ، وہیں حکومت بھی اس میں کسی نہ کسی طرح ملوث نظر آتی ہے ، خواہ مرکزی حکومت ہو یا بعض ریاستی حکومتیں ، جبکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، اس میں آئین کی حکومت ہے ، ملک کا آئین ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کو اور تمام طبقات کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مساوات کا حق دیتا ہے ، مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے ، ملک کے آئین کی پابندی تمام شہریوں پر لازم ہے ، ملک کی تمام حکومتوں پر بھی آئین کی پابندی ضروری ہے ، اگر کوئی آئین کے خلاف کرتا ہے ،تو اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرنے اور قانونی چارہ جوئی کا حق ہمارے ملک کا آئین دیتا ہے ،
موجودہ وقت میں ملک میں مسلمانوں کے خلاف بہت سے مسائل کھڑے کر دیئے گئے ہیں ، ان میں سے کچھ کو خاص اہمیت حاصل ہے ، جیسے مسلمانوں کے تحفظ کے مسائل ، مدارس و مکاتب کے مسائل ، اوقاف کے مسائل ، یہ سبھی مسائل ایسے ہیں ،جن کی وجہ سے مسلم سماج کے لوگ نہایت ہی پریشانی میں مبتلا ہیں
اللہ کا شکر ہے کہ ملک میں ملی اور سماجی تنظیموں کا بڑا اثر ہے ، یہ تنظیمیں دینی اور شرعی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ، اور ملکی حالات کی جانب بھی توجہ دیتی ہیں ، جب کوئی قانون یا حکم دین و شریعت کے خلاف سامنے آتا ہے ،تو ملی تنظیمیں سرگرم ہو جاتی ہیں ، مسلم سماج اور ملت میں بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ، جس سے اچھا ماحول پیدا ہوتا ہے ،
موجودہ وقت میں جتنے مسائل مسلم سماج کے سامنے آئے ہیں ، ان کا تعلق مسلم سماج سے بھی ہے اور حکومت سے بھی ہے ، اللہ کا فضل ہے کہ ملی تنظیموں نے مسلم سماج کے لوگوں کو بیدار کرنے میں اپنا حق ادا کردیا ، اب ملی اور شرعی مسائل سے مسلم سماج کے لوگ بہت حد تک واقف ہو چکے ہیں اور بیدار بھی ہوچکے ہیں ، اب اس کے دوسرے شق پر کام کرنے کی ضرورت ہے ، اور وہ ہے سیاسی سطح پر کوشش ، میرے مطالعہ کے مطابق مسلم مسائل میں سے بالخصوص مدارس اور اوقاف کے جو مسائل ہیں ، ان کا تعلق بڑی حد تک سیاست سے بھی ہے ، سیاست میں بھی خاص طور پر حکومت سے ہے ، حکومت چاہے تو یہ مسائل سامنے آئیں ہی نہیں ، مگر افسوس کی بات ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے ، تو ہم ادھر ادھر کی بات زیادہ کرتے ہیں ، دوسری سیاسی لوگوں سے بات زیادہ کرتے ہیں ، مگر براہ راست حکومت سے بات کرنے کی جانب توجہ کم دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں
یہ حقیقت ہے کہ صاحب اقتدار خوشامد پسند ہوتے ہیں ، وہ بہت سی مرتبہ اپنے مخالف کو مجبوری میں ڈال کر کام نکالنا چاہتے ہیں ، ایسے وقت میں مخالف جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حالات اور وقت کی نزاکت کو سمجھے اور وقت کے مطابق لائحہ عمل طے کرے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا ،تو پھر اپنے لوگوں میں بیداری کا کوئی نتیجہ سامنے آنے کی امید نہیں کی جاسکتی ہے
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مشکل حالات میں اصل فریق سے براہ راست بات چیت سے اکثر مسائل حل ہوتے ہیں ، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اصل فریق سے بات کرنے کے بجائے اس کے مخالفین سے مدد لے کر اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ، اس کی بھی ضرورت ہے ، مگر اصل ضرورت یہ ہے کہ اصل فریق سے بات کی جائے ، اس کے لئے دوسرے لوگوں سے مدد لی جائے ،
ہمارا ملک بحرانی دور سے گذر رہا ہے ، اس لئے میرے مطالعہ کے مطابق موجودہ وقت میں اس کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی کو تبدیل کریں ، اور حکومت سے بات کریں ، بار بار بات کریں ، وقت لینے کے لیے سیاسی لوگوں کا استعمال کریں ، بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعہ ہی اکثر مسائل حل ہوتے ہیں ،
موجودہ وقت میں اس کی بھی ضرورت ہے کہ جارحانہ انداز تحریر اور جارحانہ انداز تقریر سے بھی بچیں ، بالخصوص ذمہ داران کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہوا ہوائی کی بات سے بچیں ، اپنی زبان میٹھی بنائیں ، پیار و محبت کی بات کریں ، آپ مسائل حل کرنے کے لئے میدان میں کام کر رہے ہیں ، اور جن سے آپ کو اپنے مسائل کو حل کرانا ہے ، ان کے خلاف بول رہے ہیں ، یہ مصلحت کے خلاف ہے ،
خلاصہ یہ کہ ملت میں بہت بیداری آگئی ، اب ملی تنظیموں کے قائدین اور مسلم سیاسی لیڈران کو چاہئے کہ آپس میں اتحاد بنائیں اور مسائل پر براہِ راست حکومت سے بات کریں ، نیچے کے ذمہ داروں سے لے کر اوپر کے ذمہ داروں سے بات کریں ، بالخصوص وزیر اعظم سے ملاقات کریں ، مرکزی حکومت کے ذمہ داروں سے ملیں ، بقدر ضرورت ریاستی حکومت کے ذمہ داروں سے بھی ملیں ، تمام تنظیموں پر مشتمل مضبوط وفد تیار کریں ، اور وزیر اعظم اور اعلی ذمہ داروں سے بات کریں ، بار بار مل کر بات کریں ، توقع ہے کہ ملاقات کے اچھے نتیجے سامنے آئیں گے ، امید ہے کہ ہمارے ملی و سیاسی قائدین اس جانب توجہ دیں گے ، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے ، جزاکم اللہ خیرا

ازقلم: (مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے