بابری مسجد ہم ہی تیرے مجرم ہیں ۔

مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ ۔

جب کسی قوم سے احساس شعور ختم ہو جاتا ہے تو وہ قوم آپاہیچ ہو جاتی ہے ۔ شعور انسان کو زندہ رکھتا ہے ، قلب و جگر کو گرمی بخشتا ہے، جس سے اعضاء و جوارح متحرک ہوتے ہیں ۔ شعور اگر بیدار ہو تو پھر اپنا حق وصولنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے ، چاہے وہ حقوق مذہبی، ہو یا ملکی لیکِن احساس شعور کے فقدان کی وجہ سے انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ کر اپنی بربادی کی دہائی دیتے رہتا ہے ۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، مختلف مسلک و مشرب کے لوگ یہاں ہیں ، آئین ہند سب کو اس کے حقوق فراہم کرتا ہے اور حق تلفی کی بنا پر اس کے مطالبے کی بھی اجازت دیتا ہے ۔ اس کے باوجود ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ جو حق تلفی ہوئی یا ہو رہی ہے اس سلسلہ میں وہ احساس ابھی بیدار نہیں ہوا جس کا تقاضا ہے ، یہ کمی نہ صرف عوام میں ہے بلکہ مسلم تنظیمیں بھی اس کا شکار ہیں ۔ مشاہدہ بخوبی ہورہا ہے ۔
مسئلہ صرف بابری مسجد کا نہیں ہے ، ہر سال چھ دسمبر آتا ہے گزر جاتا ہے اور یوں ہی آئے گا گزر جائے گا یہی کچھ لوگ رولیتے ہیں، دو چار تقریریں ہو جاتی ہیں، ایک دو تحریریں لکھی جاتی ہیں، اس کے بعد وہی سرد مہری کے جال میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ، جو لائحہ عمل ہونا چاہیے تھا اور جس طرح پرزور مطالبات ہونے چاہیے تھے پورے شد و مد کے ساتھ حقوق کے تحفظ کو یقینی صورت بنانی چاہیے تھی وہ نظر نہیں آتا ۔ یا تو کرسیوں کا ڈر یا پھر زندان کا خوف ہے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ہر دن مندر مسجد کے نام کا کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے ، بیتے چند دنوں میں جو واردات ہوئے متشددین کی طرف سے جو تیر چلے اس کا نشانہ کوئی ایک مسجد نہیں بلکہ ہر مسجد ہو سکتی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک بابری مسجد گئ تو اسی وقت سے پورے شعور کے ساتھ مستقبل کیلئے ہر عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا لیکن جلسے جلوس کی مار نے عقلوں پر پردے ڈال دئے اور اصل کام کرنا ہی بھول گئے ۔ آنے والے وقت میں کیا ہوگا اور مسلمانوں کو کس طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہوگا مطلع ابھی سے صاف نظر آرہا ہے اور مسلم قوم کس طرح سے اس کا مقابلہ کرے گی یہ بھی صاف ہے سنبھل کے واقعات نے تو اور بھی واضح کردیا کہ جہاں واردات ہورہے ہیں صرف وہیں کے لوگ اس کو حل کریں گے دوسری جگہوں کے لوگوں کو کوئی پرواہ نہیں اور اس سلسلہ میں عوام قائدین ایک ہی کشتی کے شہسوار ہے ہیں ۔ کیا شیخ الحدیث کو یہ حدیث بیان کرنے میں جھجھک محسوس ہورہی ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ ۔۔ مؤمن ایک ہی جسد واحد ہیں اگر جسم میں کسی حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا بدن اس درد کو محسوس کرتا ہے ۔۔۔ اور بقول نواز دیوبندی

اس کے قتل پہ میں چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پر آپ چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے ۔

ع ۔ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں
تمہاری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ۔

مسجدیں کسی ایک خطہ کی ایک بستی یا کسی ایک قوم کی نہیں ہوتیں اس میں پوری امت مسلمہ کا حق ہے ، لہذا اس کو آباد کرنا اور اس کی حفاظت کرنا امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے ۔ کوئی اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتا ہے ۔ اگر دنیا کے کسی بھی کونے میں شعائر اسلام کی بے حرمتی ہو تو ہر کونے کونے سے صدائے احتجاج بلند ہونی چاہئے اس لئے کہ دنیا کا نظام اسی سے قائم ہے ، صرف کلمہ پڑھ لینا مسلمان نہیں کہلاتا بلکہ دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا تحفظ بھی ضروری ہے ۔

خرد نے کہ دیا لا الہ تو کیا حاصل
دلو زباں مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔

آخر کب ہوش آئے گا ؟ بیداری کب آئے گی ؟ احساس کب پیدا ہوگا ؟ آنکھیں اور کتنا نظارہ کریں گی ؟ اور کتنی جانیں جائیں گی ؟ کتنی مسجدیں مشکوک قرار دی جائیں گی ؟ عیش و طرب سے کب باہر آئیں گے ؟
انتظار کیجیے تماشہ دیکھتے رہیے افسوس کا لیٹر پیڈ جاری کرتے رہیئے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے