آر ایس ایس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور اس کے اثرات

آر ایس ایس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے ہمارے ملک کی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے مستقبل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس نظریاتی تسلط نے خاص طور پر اقلیتی اداروں، وقف جائیدادوں، عدالتی نظام، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سرکاری نوکریوں، اور اعلیٰ تعلیم جیسے شعبوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، جو نہ صرف ان کی موجودہ حالت بلکہ ان کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اقلیتی ادارے اور وقف بورڈز آر ایس ایس کے نظریاتی ایجنڈے کی براہ راست زد میں ہیں۔ مسلمانوں کے تعلیمی اور مذہبی اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، اور ان کے فنڈز اور اختیارات کو محدود کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ وقف جائیدادیں، جو صدیوں سے مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کا اہم ذریعہ رہی ہیں، یا تو حکومتی کنٹرول میں لی جا رہی ہیں یا ان پر تجاوزات کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ان اقدامات نے ان اداروں کی مالی حالت کو کمزور کر دیا ہے اور ان کے فلاحی منصوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

عدالتی نظام، جو انصاف کی فراہمی کا اہم ستون ہے، بھی آر ایس ایس کے نظریاتی دباؤ سے محفوظ نہیں رہا۔ اہم مقدمات، جیسے بابری مسجد کا فیصلہ، اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ عدالتوں کے فیصلوں میں اکثریتی جذبات کو آئینی اصولوں پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ اقلیتوں کو درپیش نفرت انگیز جرائم اور دیگر ناانصافیوں کے معاملات میں عدالتی نظام کا رویہ اکثر امتیازی اور غیر مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ مزید برآں، عدلیہ میں اقلیتی نمائندگی میں کمی اور مخصوص نظریاتی رجحانات رکھنے والے ججوں کی تقرری انصاف کے نظام پر اقلیتوں کے اعتماد کو کمزور کر رہی ہے۔سنبھل کے حالیہ واقعات جس میں مساجد کے سروے کی اجازت مقامی عدالتیں آسانی سے دے دیتی ہیں ایک سنگین سماجی مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ جگہ جگہ تاریخی مساجد کے نیچے مندر کی تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

۔قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی اقلیتوں کے خلاف واضح تعصب دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں پولیس کارروائیاں سخت اور جانبدارانہ ہوتی ہیں، جبکہ ہندو شدت پسند گروہوں کو اکثر کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ نفرت پر مبنی جرائم، جن میں گائے کے تحفظ یا لَو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ان جرائم میں ملوث افراد کو اکثر قانونی تحفظ ملتا ہے۔ اس امتیازی رویے نے اقلیتوں کو قانون اور نظامِ انصاف سے مزید بیگانہ کر دیا ہے۔پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اقلیتیوں کی موجودگی اُنکی آبادی کے تناسب سے نہیں ہے۔

سرکاری نوکریوں میں اقلیتوں کے لیے مواقع پہلے ہی محدود تھے، لیکن آر ایس ایس کے اثر و رسوخ کے بعد یہ مواقع مزید سکڑ گئے ہیں۔ سول سروسز اور دیگر سرکاری شعبوں میں اقلیتوں کی نمائندگی میں کمی واضح ہے۔ حکومت کی پالیسیوں میں اقلیتی طبقات کے لیے مخصوص ریزرویشن اور دیگر سہولیات کو مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیا جا رہا، جس سے اقلیتوں کے لیے ان شعبوں میں داخلہ مزید مشکل ہو گیا ہے۔ آر ایس ایس کے زیر اثر سول سروسز میں ایسے افسران کا اضافہ ہو رہا ہے جو ہندوتوا کے حامی ہیں، اور یہ رجحان اقلیتوں کے خلاف مزید تعصبات کو جنم دے رہا ہے۔

تعلیم کے میدان میں بھی اقلیتوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلبہ کے لیے داخلے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ تعلیمی اسکالرشپس اور مالی امداد کے پروگراموں میں اقلیتوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جبکہ تعلیمی نصاب کو زعفرانی رنگ دے کر اقلیتی ثقافت اور تاریخ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف اقلیتی طلبہ کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ ہیں بلکہ ان کی شناخت اور خود اعتمادی کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔

آر ایس ایس کے بڑھتے ہوئے نظریاتی تسلط نے اقلیتوں کے اداروں، ان کے حقوق، اور سماجی تحفظ کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ ان اقدامات کا مجموعی اثر یہ ہے کہ اقلیتوں کی اقتصادی، تعلیمی، اور سماجی ترقی کے امکانات محدود ہو رہے ہیں۔ اگر اس رجحان کو روکا نہ گیا تو آئندہ نسلوں کے لیے مساوات، انصاف، اور ترقی کے مواقع مزید کمزور ہو جائیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ان خطرات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اقلیتوں کے حقوق اور آزادی کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

تحریرْ: شیخ سلیم ،ممبئی
اسلامی اسکالر ،سوشل اکٹوسٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے