تحریر: طاہر ندوی
مشرقی سنگھ بھوم جھارکھنڈ
آج آٹھ دن سے تری پورہ جل رہا ہے ، بارہ مساجد توڑ دئے گئے ، تین مساجد کو نذر آتش کردیا گیا ، قرآن کو جلا دیا گیا ، گھروں کو توڑا جا رہا ہے ، دکانوں کو آگ کے حوالے کیا جا رہا ہے ، مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے ، گھروں میں عورتوں مردوں اور بچوں سمیت زد و کوب کیا جا رہا ہے ، مسلم گھروں میں بھگوا جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں ، جس نبی کی ولادت کے موقع پر پردھان منتری نریندر مودی نے مسلمانوں کو مبارک باد پیش کی تھی آج سر عام اسی نبی کی شان میں نازیبا کلمات کہے جا رہے ہیں یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جس کو سب سے بڑا سیکیولر ملک کہا جاتا ہے ، جہاں گنگا جمنی تہذیب کا راگ الاپا جاتا ہے ،جہاں رام و رحیم کے گیت گائے جاتے ہیں اور جسے پیار و محبت ، امن و امان کا گہوارہ کہا جاتا ہے ۔
لیکن سب خاموش ہیں ، سیاسی گلیاروں میں کوئی ہلچل نہیں ، اکھیلیش یادو جو ہاتھرس سانحے پر ہاتھرس جانے کی ضد لگائے بیٹھے تھے وہ تری پورہ جانے کی بات کیوں نہیں کرتے ، پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی جو ہاتھرس جانے کے لئے دھکے کھا رہے تھے ، پولیس سے ہاتھا پائی کر رہے تھے جن کے بدلے انہیں حراست میں لیا گیا تھا ان سے کوئی کہہ دے کہ تری پورہ کا راستہ کھلا ہوا ہے وہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے پھر کیا وجہ ہے کہ آپ یا آپ کی پارٹی کا کوئی بندہ تری پورہ کا دورہ نہیں کرتے ، ہاں تری پورہ کا معاملہ مسلمانوں سے وابستہ ہے اور تم جیسے ضمیر فروش انسان ، انسانیت کو شرمسار کرنے والے بس الیکشن کے وقت ہی مسلمانوں کی یاد ستاتی ہے ۔
وہ لوگ کہاں گئے جو سیکولر سیکولر کہتے نہیں تھکتے تھے آج ان کی زبانوں پر تالا کیوں لگا ہوا ہے ؟ کہاں گئی جمعیت ؟ کہاں گئے ایم آئی ایم کے لیڈران ؟ کہاں گئے مولانا بدر الدین اجمل ؟ کہاں گئے وہ لوگ جو آئین اور دستور کی بات کرتے تھے ؟ کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ہندوستان کے آئینی ڈھانچے پر بڑا ناز تھا ۔
آج صرف تری پورہ کی مساجد ہی نہیں گرایا گیا ہے بلکہ ہندوستان کا آئینی ڈھانچہ بھی تہس نہس ہوا ہے ، آج صرف قرآن کریم ہی نذر آتش نہیں ہوا بلکہ ہندوستان کے دستوری قوانین کو نذر آتش کیا گیا ہے ، آج صرف مسلم گھروں کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ انسانیت کو نشانہ بناکر اسے قتل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
تری پورہ کے مسلمانوں کے حق میں سب خاموش ہیں ، پورا کا پورا میڈیا ہاؤس خاموش ہے ، بڑے بڑے نیوز چینلوں میں سناٹا طاری ہے ، بس انہیں گلیمرس کی پڑی ہے ، آرین خان اور سمیر وانکھیڑے کو لے کر پریشان ہیں ، افسوس تو ان مسلم نوجوانوں پر ہے جو دن رات موبائل میں لگے رہتے ہیں وہ یا تو گیم کھیلنے میں مصروف ہیں یا پھر میچ دیکھنے میں اور اگر وقت بچ جائے تو پب جی گیم اور آئی پی ایل کا تذکرہ اور تبصرہ کرنے میں گزار دیتے ہیں یہ تو پہلے ہی مفلوج ہو چکے ہیں ان سے کوئی کیا امید رکھے جبکہ اگر یہ چاہتے تو حالات بدل سکتے تھے ، قوم کی تقدیر بدل سکتی تھی ، ڈوبتے کو سہارا مل سکتا تھا ، قوم کو رہبر و رہنما اور مصلح دین و ملت مل سکتا تھا ، اگر یہ چاہتے تو اپنے موبائل کو ہتھیار بنا کر استعمال کر سکتے تھے ، اگر یہ چاہتے تو سوشل میڈیا میں لکھ سکتے تھے بول سکتے تھے ، اس کا صحیح استعمال کر سکتے تھے لیکن افسوس یہ بے خبری کا شکار ہو چکے ہیں ، ناواقفیت کے دل دل میں گر چکے ہیں نا انہیں دین سے کوئی مطلب ہے نا دنیا کے حالات سے کوئی سروکار ہے انہیں بس اپنی دنیا کی فکر ہے اور بس ۔
آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم مشترکہ طور پر تری پورہ کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں ، اس کے لئے قومی و ملی تنظیموں کا ساتھ دیں ، اپنے سوشل اکاؤنٹ کے ذریعے اردو ، ہندی اور انگریزی زبان میں تری پورہ سرکار اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف لکھیں اور مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم کو اجاگر کریں ، اپنے علاقے اور محلے کے ائمہ مساجد اور پڑھے لکھے افراد کو تری پورہ کے مظلوم مسلمانوں کے بارے صحیح واقفیت کرائیں اور ان کے احساسات و جذبات کو ابھارنے کی کوشش کریں اگر یہ کام کر لئے تو ان شاءاللہ حالات بدل سکتے ہیں اور تری پورہ کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا سکتا ہے۔