حکم شرعی کی اہمیت و عظمت افادات: حضرت مولانا مفتی محمد جمال الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم نائب شیخ الحدیث وصدر مفتی دار العلوم حیدرآباد ضبط وترتیب: مفتی محمد عبدالرحمن قاسمی استاذ دار لعلوم حیدرآباد

شریعت کا حکم اور اس کی ہدایات بڑی اہمیت کی حامل ہیں ، اسلامی تعلیمات کی بجا آوری، ان کی عظمت اور ان کا ادب واحترام دل میں بٹھانا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے ، ایک مسلمان کے دل میں حکم شرعی کی اہمیت اور اس کی عظمت کا اتنا زیادہ غلبہ ہونا چاہیے کہ اس کو انجام دینے کے لیے وہ بے چین اور بے قرار ہو جائے ، جب تک وہ شریعت کے حکم پر عمل نہ کرلے اس کو سکون نہ ملے، ہر مسلمان سے اسی کا تقاضہ ہے کہ وہ حکم شرعی کو پوری دلجمعی، ادب واحترام اور عمل کے جذبہ سے سنے؛ اس لیے کہ اللہ کا یہ ضابطہ ہے کہ اسلامی تعلیمات سے جتنی بے لوث محبت وفریفتگی اور لگاو ہوگا اسی کے بقدر اعمال صالحہ کرنےکی توفیق عطا ہوتی رہے گی۔
مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ کا مقام ومرتبہ
حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اپنے دور میں چوٹی کے علماء میں شمار کیے جاتے تھے، اللہ نے آپ کو بہت سی خصوصیات وکمالات سے نوازا تھا، ایشیا کا عظیم دینی اور فعال ادارہ جس کا فیض پوری دنیا میں تاسیس کے وقت ہی سے تاہنوز جاری وساری ہے جسے دنیا دار العلوم دیوبند کے نام سے جانتی ہے، آپ اس عظیم ادارہ کے صدر مفتی کے عہدہ پر فائز تھے، عوام وخواص کی جانب سے کیے گئے ہزاروں سوالات کے تحقیقی اور مدلل جوابات آپ کے قلم گہربار سے صادر ہوئے، جب ہندوستان تقسیم ہوگیا تو حضرت اپنے اہل و عیال کے ساتھ پاکستان ہجرت فرماگئے، اور شہر کراچی میں ایک ادارہ قیام کیا، جس کا شمار نہ صرف پاکستان میں بلکہ پورے برصغیر میں بڑے اداروں میں ہوتا ہے، اور طالبان علوم نبوت کا مرجع ومرکز ہے، اللہ اس ادارہ کو نظر بد سے محفوظ فرمائے اور تاقیامت اس کا فیض پوری دنیا میں عام فرمائے۔ ( آمین ) حضرت نے اردو زبان میں ایک مطول تفسیر بنام معارف الفرآن لکھی ہے، یہ تفسیر نہایت عمدہ اور عوام الناس کے لیے بہت مفید ہے، آپ کے صاحبزادے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت فیوضہم نے کسی کتاب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد ماجد کی کتاب معارف القرآن کو اتنی مقبولیت عطا فرمائی کہ پریس میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں اس کتاب کی کوئی جلد نہیں چھپ رہی ہو، ہر دن اس کی کوئی نہ کوئی جلد طبع ہورہی ہوتی ہے، اسی طرح آپ کی ایک کتاب جواہر الفقہ ہے جو کہ سات ضخیم جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، جس میں آپ کے بیسیوں رسائل کو جمع کیا گیا ہے، یہ رسائل اتنے تحقیقی اور مفصل ہیں کہ آج تک اہل علم بالخصوص مفتیان کرام کے کیے سرمہ چشم ہیں، اور وہ ان سے اپنی علمی تشنگی بجھارہے ہیں۔
حضرت مولانا سید سلیمان ندوی ر دارالعلوم ندوة العلماء کے عظیم ترین سپوت ہیں، بڑی علمی شخصیت تھی، علامہ اقبال رحمہ اللہ جیسے زمانہ شناس انسان نے آپ کے متعلق کہا تھا کہ اگر موجوہ دور میں اسلامی قوانین کی ترتیب کے لیے کوئی شخصیت موزوں ہے تو وہ بلا مبالغہ آپ ہی کی ہستی ہے، مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ لکھنی شروع کی تھی جس کا نام سیرت النبی رکھا تھا،اس کی دو جلدیں ہی مکمل ہوئی تھیں کہ وقت موعود آگیا، اور اس کتاب کی تکمیل نہیں کرسکے، مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے اس کتاب کی تکمیل سات ضخیم جلدوں میں فرمائی ہے، جس سے تاہنوز اہل علم استفادہ کررہے ہیں، آپ کی تصویر کشی کے بارے میں یہ تحقیق تھی کہ یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مولانا شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے اس کی مدلل اور مفصل تردید فرمائی، جب آپ کا یہ مفصل جواب مولانا سید سلیمان ندوی صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے علمی وعملی دیانت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے موقف سے رجوع کیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ جو دلائل مولانا شفیع عثمانی صاحب نے پیش کیے ہیں وہ میری نگاہ سے اوجھل تھے۔
مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ کا بصیرت افروز واقعہ
الغرض مولانا شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ بڑی بلندپایہ علمی شخصیت تھی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ۔۔۔جن کا علمی وروحانی فیض چہار دانگ عالم میں پہونچا اور عوام وخواص آپ کی تحریر کردہ سیکڑوں تصنیفات سے مستفید ہورہے ہیں۔۔۔ کے خلیفہ خاص تھے، اتنی عظیم شخصیت کے بارے میں ان کے خاص تلامذہ کہتے ہیں کہ جب آپ کی مسجد میں کوئی دینی مجلس قائم ہوتی، یا ایسی جگہ دینی مجلس قائم ہوتی جہاں تک آپ کے لیے پہونچنا ممکن ہوتا۔۔۔ حضرت چوں کہ آخری عمر میں نحیف وکمزور ہوگئے تھے؛ اس لیے آپ عموما گھر اور مسجد تک ہی محدود ہوگئے، سفر شاذ و نادر ہی کیا کرتے تھے۔۔۔تو ضرور اس مجلس میں تشریف لے جاتے اور پوری دل جمعی اور حاضرباش ہوکر وعظ ونصیحت سنتے، آپ سے کسی نے کہا: حضرت آپ کا شمار اکابر علماء میں ہوتا ہے، آپ نے اپنی پوری زندگی کتابوں کی درس و تدریس اور مطالعہ میں لگادی ہے، آخر کون سی ایسی بات آپ کے مطالعہ میں نہیں آئی ہے کہ آپ اہتمام کے ساتھ دینی مجالس۔۔۔ جس میں بیشتر عام فہم باتیں ہوتی ہیں، لوگوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرایا جاتا ہے۔۔۔میں حاضری دیتے ہیں، آپ نے جواب جو بات فرمائی ہے وہ بہت عمدہ اور ہمارے لیے اہمیت کی حامل ہے، آپ نے کہا: میری ان مجالس دینیہ میں شرکت ہرگز معلومات میں اضافہ کی نیت سے نہیں ہوتی ہے، میں ان مجالس میں بس اس لیے شرکت کرتا ہوں کہ وعظ ونصیحت کرنے والے شخص کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جو میری سرد احسانی کیفیت کو شعلہ زن کردے اور میں عمل پر اتر جاؤں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے