ازقلم: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے
آج عید سعید یوم الجائزہ انعام کا دن ہے ،رمضان المبارک اپنی تمام تر سعادتوں اور قابل رشک انوار برکات اپنے جلو میں لئے رخصت ہوا ، آج جہاں کچھ احباب عید سعیدکی خوشیاں بانٹ رہے ہیں وہیں کچھ احباب زخم جگر کو مندمل کرنے یا خنجر کی انی سے جاں بر ہونے کی امید میں منتظر فرداہیں۔
کچھ وہ ہیں جو سلاخوں میں ایام شمار کر دن رات اقربااور معصوم بچوں کے دیدار کے لئے بے چین اورغلامی ومحرومی سے نجات کے لئے بے قرارہیں۔ کوئی بلڈوزر کی نذر ہونے کی وجہ سے بے گھر ہیں اور کھلے آسمان تلے زندگی جینے پر مجبور۔تو کسی کے جوانوں اور اکلوتے سہاروں کی بے وجہ گرفتاری ،سکوت بھرے ماحول میں کبھی انکاؤنٹر تو کبھی سلامتی دستہ کی موجودگی میں اسلحہ کی نمائش کر سرعام قتل وخون ریزی کا درد وکرب انگیز ماحول ،کبھی شہریت ختم کرنے کی دھمکی ،کبھی مختلف بہانوں سے ٹارچر کرتے رہنے کی لت اور ہمہ وقت عدم تحفظ کا احساس ،ہندی مسلمانوں کو گھن کی طرح کھائے جارہے ہیں۔مستقل مسلم بیٹیوں کو ٹارگیٹ کرنے کا گھناؤنا عمل توکبھی آباواجداد کے ہاتھوں قائم قدیم ترین مسجد کی مسماری ،کبھی دوکانوں ،مکانوں اور اب مسجدوں میں رب کی عبادت کرنے پر شرانگیزی ،مزاروں ،قبرستانوں اور مدرسوں کو سبوتاژ کرنے کے درپہ اوباشوں کی دل دوز حرکتیں تو کبھی معصوم بچوں کو ننگا کر ہندو مسلم کی پاٹوں میں پسنے کی ذلیل حرکت، مسلمانوں کو ملکی حقوق سے دست بردار کرنے کی مسلسل کوششیں ، کبھی ناروا اور دل دوز فقروں کے ساتھ مسلم کش فسادات ،مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے اتارو غنڈوں کو بے لگام چھوڑے رکھنے کی اوچھی سیاست جیسے ایشوز ہیں ،جن کے رہتے ہوئے کیا عید اور کیا عید کی خوشیاں ! امیر مہدی کو شاید بہت پہلے حالات کا انکشاف ہوگیا تھا اور برمحل شعر وسخن کے کاغذ پر”عید مبارک ” کا جو مرثیہ کبھی انہوں نے پڑھا تھا،ایسا لگتا ہے کہ ہماری عید تو بس لغوی معنی میں ہی عید ہے :
کس دل سے کہوں کیسے کہوں عید مبارک
کہتے ہوئے دل ہوتا ہے خوں عید مبارک
پھر پھول کھلے باغ میں پھر فصلِ بہار آئی
اے وحشتِ دل سوزں دروں عید مبارک
بجلی مری بستی پہ گری موسمِ گل میں
یہ راکھ سمیٹوں کہ کہوں عید مبارک
یہ عید کا ہے چاند کہ خنجر کی انی ہے
اے زخمِ جگر دستِ جنوں عید مبارک
دھڑکن مرے دل کی ذرا معمول پہ آلے
دم لے دلِ محزوں تو کہوں عید مبارک
دل میں کوئی امید نہ آنکھوں میں کوئی خواب
اے ناوکِ نومیدِ دروں عید مبارک
(امیر مہدی)
یہ کیسا دارالامن جہاں نہ انسان محفوظ ہواور نہ انسانیت باقی،یہ کیسا ” سارے جہاں سے اچھا” جہاں منصف ہی قاتل ہیں ،یہ کیسا “گلستاں ” جہاں ایک مسلم ماں کی ممتا کو مقتول بیٹے کی لاش تک کو دیکھنے سے روک دیا گیا ہو ، پر بت میں یہ کیسی اونچائی جہاں مدرسوں اور سوسالہ لائبریری کو آگ کے حوالے کردیا گیا ہو ،یہ کیسا مذہبی جنون کہ جہاں رام کے نام پر رام کے پیغاموں کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت سوز حرکت کی گئی ، عبادت گاہوں کو مسمار کرنے اور مذہبی جلوس کے نام پر غریبوں کی دکانوں کو نذر آتش کرنے اور روتے بلکتے معصوم بچوں کو بے سہارگی کی زندگی جینے پر مجبور کیا جارہا ہو۔ایسے پر خطر ،نفرت انگیز اور امن وامان کو غارت کرنے والے ماحول میں کیا عید منائی جائے اور کیوں کر عید کی مبارکبادی دی جائے!
کبھی” دستور ہند” ملک کا سرمایہ ،بلکہ گراں مایہ تھا ،اب تو سر عام اسے پھاڑا اور جلا یا جارہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ یہ سب حب الوطنی کے نام پر ہورہا ہے۔ملک بے سمتی کا شکار ہورہا ہے ،مگر اس کے کھیون ہار “ترقی وتحفظ ” کے بڑبول سے نہیں شرماتے۔نفرتی طبقہ ملک میں آزاد ہے جب کہ پیغامبرانِ امن ومحبت اسیر پس دیوار زنداں !
بات صرف ہندی مسلمانوں کی نہیں،پوری دنیا کے مسلمانوں کے تقریبا ایک سے مسائل ہیں جس میں قدر مشترک ایمان کا وہ نور ہے جس سے باطل لرزاں ہے ،مسلمانوں کے ساتھ حالات ہیں ،اور حالات رہیں گے ،دنیا میں اگر زندہ قوم کے طور پر مانا جارہا ہے تو وہ صرف مسلمان ہے اور یہ ہر زمانے میں رہا ہے ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
حقیقی مسلمان کبھی حالات سے دل برداشتہ نہیں ہوتے ،انہوں نے حالات سے بہت کچھ سیکھا ہے ،انہوں نے حالات ومسائل کے درمیان ہمیشہ کامیابی کی راہ تلاش کی ہے ،انہوں نے رونے اور آہ وفغاں کے بجائے حکمت عملی کو راہ دینے کی تدبیر پر مضبوطی سے عمل کر دنیا کو حیران کیا ہے ،موت زندگی کا حصہ اور اختتامیہ ہے اگر آنی ہوگی اور زندگی کا خاتمہ مقدر ہوگا تو بند شیشے میں بھی ہوجائے گا ،مگر اچھی موت یہ ہے کہ میدان کار زار میں آئے ،دشمنوں کو بھی خیر اور ہدایت کا سبق دیتے ہوئے آئے۔اہل ایمان نے کامیابی ہمیشہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احکام خدا وندی کی پابندی میں حاصل کی ہے ،رجوع الی اللہ اور حضور پاک کی سیرت وسنت کی پیروی حاصل زندگی ہے ،باقی چیزیں نور ایمانی کو گل کرنے کے اسباب ہیں ،ہمیں ایمان اور بزدلی کو راہ نہیں دینی ہے ،یہ ایسی غلطی ہوگی کہ جس کی بھر پائی حیات و ممات کے بعد بھی مشکل ہے۔ہم خوب خوشیاں منائیں ،آج کا یہ دن اللہ کا انعام ہے ،دل برداشتہ ہوئے بغیر عید سعید کی مبارک بادی بھی پیش کریں اورمبارک بادی وصول بھی کریں، بلا خوف اور عدم تحفظ کے احساس سے بالا تر ہوکرنئی زندگی جئیں ،اللہ سے کامل بندگی اور امت محمدیہ ہونے کے تئیں فرائض کی انجام دہی میں اشتغال ہمارا شیوہ ہونا چاہئے ،ہم بے مقصد زندگی جینے سے بچیں ،مسائل ومشکلات سے گھبراہٹ انہیں ہوتی ہے جنہیں یہاں سب روز رہنے کی امید وچاہت ہے،اہل ایمان ،اس دنیا میں محض ایک مسافر ہیں،اہل ایمان کے لئے تو یوں بھی حیات مستعار مکمل قید خانہ ہے ،یہاں کا مال ومتاع سب فانی ہے ،ان کی دنیا تو جنت ہے ۔ضرورت ہے کہ ہم بامقصد زندگی جینا سیکھیں ،پلاننگ کے ساتھ ہمارے ایام گذریں اور یہ پلاننگ ذاتی آشائس ونعم کے لئے نہیں ،بلکہ ہمارے دنیا میں آنے کا جو مقصد ہے ،وہ مقصد کیسے پورا ہو اس کے لئے ہمیں انفرادی واجتماعی پلاننگ کرنی ہے جس میں ملک ووطن ، انسان اور انسانیت سمیت زندگی اور مابعد زندگی کی پلاننگ پیش نظر ہو۔ تعلیم ،خدمت خلق، غریب وکمزور کی داد رسی،سماجی ترقی،روزگار کا حصول ملک ووطن کے لئے قربانی ، دینی دعوت ،اخلاق ومعاشرت جیسے مسائل کو آپ اپنی پلاننگ کا حصہ بنا سکتے ہیں۔کبھی کسی کے ساتھ وقت کا پہیہ یکساں نہیں چلا ہے ،جس طرح دن بدلتے ہیں ،راتیں آتی جاتی ہیں ،اسی طرح کبھی بہتر حالات سے انسان گذرتا ہے اور کبھی مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔مگر مضبوط ایمان ،معتدل اعمال ،خلوص بھری دعوت اور مسلسل جد وجہدسے راہیں آسان ہوتی ہیں ، ملت کے لئے نافع بن کر نافعیت کا نسخہ آزماتے رہیں اور آپسی اتحادکی مضبوط رسی کو تھامے رہیں ،سچائی اور انصاف سامنے آتے رہیں گے۔ ہم ابھر کر زندگی جینا سیکھیں ،بے خوف رہ کرامن وقانون کے سائے میں وقت بیتائیں ،پھر بھی اگر مشکلات پیش آتی ہیں تو یہ اللہ کا فیصلہ سمجھیں اور ان مشکلات سے نکلنے کی راہ، دین اور دینداری میں ڈھونڈیں۔
طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو