تحریر: سمیع اللہ خان
ksamikhann@gmail.com
آج ہندوستانی پارلیمنٹ سے ایک ایسا بِل پاس ہوگیاہے جو شہریوں کی پرائویسی کے لیے واقعی خطرناک ہے، election laws amendment bill جس کے ذریعے اب ” آدھار کارڈ ” کو ووٹر آئی۔ڈی یعنی کہ الیکشن کمیشن سے منسلک کرنے کا قانون بنا ہے
یہ قانون آئینِ ہند اور سپریم کورٹ کی ہدایات کےخلاف ورزی تو ہے ہی مزید یہ اقدام کھلے طورپر ہندوستان کو ” استعماری کالونی ” میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے، یہ صرف مسلمانوں کے لیے خطرہ نہیں ہے یہ بھارت میں بسنے والے ہر ہر رہائشی کے لیے خطرناک ہے،
یہ بِل آج پاس بھی ہوگیاہے اور ملک کے ہر ہر شہری کے نجی حقوق کے ساتھ ایک گھٹیا مذاق قائم کرچکا ہے، اس بِل کی سنگینی کے لحاظ سے اس بابت بیداری نہیں نظر آرہی ہے اسی لیے آج آپ حضرات سے مخاطب ہوں ۔ موجودہ دور میں یہ ہر انسان کے لیے بہت اہم ہےکہ وہ اپنے گھر، نجی زندگی اور کھاتوں میں سرکاري جاسوسي کےخلاف حساس رہے، ڈیجیٹلائزیشن اور آسانی کےنام پر عام انسانوں کی معلومات سے ہورہے کاروبار کےخلاف بیداری ہی نہیں غصہ پیدا ہونا چاہیے اور نظر بھئ آنا چاہیے،
اس بابت سرکاری بیانیہ بالکل بوگس ہے کیونکہ آدھار کارڈ شہریت/Citizenship کا ثبوت نہیں ہے وہ رہائشی شناخت نامہ / Resident I’d ہے
گرچہ ابھی اسے رضاکارانہ رکھنے کا ڈھونگ کیا جارہاہے لیکن
ذرا باریکی سے سمجھیے :
مودی سرکار ووٹر آئی ڈی کے ساتھ آپ کے آدھار کارڈ کو منسلک کیوں کرنا چاہتی ہے؟
ووٹر آئی ڈی سے اگر آدھار کارڈ لنک ہوجائے تو؟ آپ کا موبائل نمبر یقینًا آدھار کارڈ سے لنک ہوگا، آپ کا سوشل میڈیا آپ کے موبائل نمبر سے منسلک ہوتا ہے اور بینک اکاؤنٹ سے بھی موبائل نمبر اور بعض بینکوں میں آدھار کارڈ بھی اکاؤنٹ سے منسلک کروایا جاتا ہے
یہ صرف خطرات نہیں ہیں بلکہ یہ وہ یقینی امکانات ہوں گے جو آپ کے آدھار کارڈ کے الیکشن کمیشن میں لنک ہوتے ہی قائم ہوجائیں گے
بھارتی الیکشن کمیشن کی شفافیت کوئی فرشتوں کی طرح نہیں ہے جن پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے بلکہ الیکشن کمیشن کی دھاندلیوں اور خیانتوں کے ایسے ریکارڈ ہیں جو کئی دفعہ کمیشن کی سیاسی وفاداریوں کا پردہ فاش کرتےہیں، اس کےعلاوہ یقینًا ہم یہ نہیں کہتے کہ اس سے صرف مسلمانوں کو خطرہ ہے لیکن ہمارے سامنے دہلی دنگوں کے بعد الیکشن کمیشن کا شرمناک ریکارڈ بھی ہے، یاد رہے کہ، دہلی کے مسلم مخالف فسادات کےبعد ظالم دہلی پولیس نے الیکشن کمیشن کے ذریعے مسلم بچوں کی جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ ان کا ڈاٹا حاصل کرکے انہیں پھنسایا جاسکے، جس پر الیکشن کمیشن نے انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا تھا، اُس وقت بھی میں نے الیکشن کمیشن کی ایسی گھٹیا حرکت پر کالم لکھا تھا اسے آپ پڑھ سکتے ہیں
یہ صرف ایک مثال ہے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے علاوہ آندھراپردیش و تلنگانہ میں الیکشن کمیشن اور ووٹرز کے تنازعات جو سامنے آئے ہیں انہیں بھی اس بابت دیکھنا چشم کشا ہوگا
سردست ہمارے سامنے یہ مسئلہ ہےکہ برہمنی حکومتِ ہند اس قانون کے ذریعے ہندوستان کے تمام شہریوں کی نجی زندگیوں میں براہ راست دخل دینا چاہتی ہے تاکہ موٹا بھائی کی منسٹری اور جعلی دیش دروہی و دہشتگرد تیار کرنے والی ایجنسیوں کے پاس ہمیشہ آپکا access رہے، اس کے علاوہ ہمارا نجی ڈاٹا ایسے ڈومین کے حوالے کرنے کی کوشش ہے جس کے ذریعے ہمارے بینک کھاتوں سمیت دیگر جانکاریوں کا کاروبار کیا جاسکے،
اس کے ذریعے نسل پرست برہمنوں کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اس طرح وہ کروڑوں لوگوں کو ووٹنگ کے حق سے محروم کردیں، آپ کو کاغذی دعووں پر یقین رکھنے والے خواہ لاکھ کاغذی دلیلیں دے دیں لیکن وہ کاغذی دلیلیں کسی بھی حال میں ان خطرات کو روکنے کی ضامن نہیں ہوسکتیں ۔
بھاجپا سرکار جس انداز میں یکے بعد دیگرے پارلیمنٹ سے قوانین پاس کررہی ہے وہ جمہوری یا پارلیمانی طرز ہے ہی نہیں یہ کھلی ہوئی ڈکٹیٹرشپ ہے اس کے ذریعے بھارت کو استعماری کالونی میں تبدیل کرنے کا ہدف ہے
یہ قانون پارلیمنٹ سے پاس ہوچکا ہے اور اپوزیشن اس کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اب باری ہماری اور آپکی، آدھار کارڈ یا ہماری خودمختاری!
بیدار ہوجائیے کسی بھی حال میں یہ قانون نافذالعمل نہیں ہونا چاہیے رضاکارانہ بھی نہیں، بلکہ اسے ہرحال میں پلٹ کر مودی سرکار کے منہ پر دے مارنا چاہیے، ہندوستانی معاشرے کو اس بابت یوروپین ممالک کی طرف دیکھنا چاہیے، وہاں اعلیٰ ترین تکنیک کےباوجود حکومتوں کی ہمت نہیں پڑتی کہ شہریوں کی نجی زندگیوں میں داخل ہوسکیں، ہندوستان آر ایس ایس کی برہمنی کالونی میں تبدیل ہورہاہے موجودہ حکومت ہند نازیوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور پورے ملک کو پھر سے غلامی کے سسٹم میں رفتہ رفتہ جکڑ رہی ہے۔