محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقشِ قدم پر!

ازقلم: شکیل منصور القاسمی

معتدل اور لچکدار اسلام کے بانی مبانی محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سالوں پہلے سے دینی روح او اسلامی جذبہ رکھنے والی تحریکوں کو پابند سلاسل کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کے گھنائونے کھیل و منصوبے کا آغاز کردیا تھا ، جبکہ خالص ہندو کلچر ” یوگا "کھیل کو قومی طور پر منظوری دی گئی ۔سعودی عرب کو نئے شہزادے نے ببانگ دہل تمام مذاہب کے پیرو کاروں اور دنیا کے ہر فرد کے لئے کھلا رکھنے کا اعلان کردیا؛ لیکن
سیاست ، فرقہ واریت ،مسلکی اختلافات وتنگ نائیوں سے مکمل عاری و خالی ، صرف کلمے کی بنیاد پر دنیا کے تمام مسلمانوں کو سو فیصد اللہ کے احکام اور پیغمبر اسلام کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے کی محنت کرنے والی بے لوث تحریک “تبلیغی جماعت “ پہ پابندی عائد کردی گئی ۔ کس قدر شرمناک امر ہے کہ وہاں ایسے ایسے ریستوران کھل چکے ہیں جہاں عورتیں اور مرد مخلوط طور پر بلا روک ٹوک بیٹھ کے عیاشیاں کرسکتے ہیں ۔ وہاں تیز موسیقی بھی بجتی ہے۔مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب سعودی عرب میں بلا روک ٹوک گاڑیاں چلا رہے ہیں ، مدینہ منورہ سینما ہالز بھی کھل چکے ہیں ، صحرائی ریس میں عورتیں اور مرد دونوں شریک ہورہے ہیں ۔
کورونا کا بہانہ بناکر حرمین شریفین کو تو لمبے عرصے تک بند کردیا گیا ؛ لیکن بے حیاء رقاصائوں کو بلا بلا کر، کرونا ایس او پیز کا خیال کیے بغیر، حرمین کی مقدس سرزمین میں رقص وسرود کی محافل منعقد کی گئیں ۔ احادیث رسول کی ایسی من مانی اور مغربی آقائوں کی من پسند تشریح وتوضیح کرنے کی اکیڈمی قائم کی گئی جس سے سخت گیر اور اسلام پسند نظریہ کا قلع قمع کیا جاسکے۔نہی عن المنکر کے لئے سعودی عرب کی گلیوں میں جو مذہبی پولیس (المطوع) گشت کرتی نظر آتی تھی ۔اس ٹیم کو بھی اب معتدل اسلام کے بانی مبانی شہزادے نے ” غار سر من رأی ” میں بھیج دیا ہے۔ یعنی امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ادارے کو کالعدم کرکے اس کو “جنرل انٹر ٹینمنٹ اتھارٹی “ کے گھٹیا ادارے سے بدل دیا گیا ہے۔ ارض توحید پہ الحاد جدید کی چو طرفہ یلغار ہے ۔دین بیزار وزارت مذہبی امور نے امن وآشتی کی داعی تبلیغی جماعت پہ جو حالیہ پابندی عائد کی ہے اس کے اس شرمناک و گھنائونے کرتوت اور خطرناکیوں کو سوشلستان میں اجاگر کرنے کے ساتھ مساجد کے ائمہ وخطباء جمعہ کے خطبوں میں بیان کریں ، ملی ومذہبی قائدین متحد ہوکے سعودی سفارت خانے کے سامنے پر امن مظاہرہ کر اپنا احتجاج درج کروائیں ، اس شرمناک اقدام کی مذمت کریں ، عربی وانگلش میں مذمتی تحریر وکلپس تیار کرکے سماجی رابطے کی سائیٹس پہ عام کی جائے ۔ یہ سب کچھ صہیونیوں کی منظم سازش کے زیر اثر ممکن ہوا ہے ، اسے دلیل بناکر اب بھگوا حکومت بھی اندرون ملک اس پہ شکنجہ کسنے کی تیاری میں ہوگی ،وقت کا تقاضہ ہے اصحاب قلم وملی تنظیموں کے قائدین معاملے کی نزاکت وحساسیت کا بروقت ادراک کرتے ہوئے متحد ہوکر اس کے خلاف آواز بلند کریں ؛ تاکہ سعودی حکومت کو اس پہ نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔