تحریر: فرمان مظاہری
رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو بطور ”جمعۃ الوداع” منانا نبی کریم ﷺ ، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے۔ حضور ﷺ رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارتے تھے۔ پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے۔ لیکن رمضان کے آخری جمعہ کے لیے نئے کپڑے سلوانا۔ یا کوئی خاص عبادت کرنا اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں کوئی خاص قسم کا خطبہ احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ رمضان کے دیگر جمعے کی طرح ہی ہے۔ آخری جمعہ کی کوئی الگ سے فضیلت کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
رمضان المبارک کے شروع میں اکثر مساجد میں نمازیوں کا جم غفیر دیکھا جا رہا تھا۔ لیکن پندرہ رمضان المبارک گزرنے کر بعد سے نمازیوں کی تعداد غیر رمضان کی طرح دیکھی جا رہی ہے۔ اب اکثر مساجد میں تراویح کی نمازوں میں وہی لوگ نظر آرہے ہیں جو سال بھر پنجوقتہ نمازیں ادا کیا کرتے ہیں۔ عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ شروع رمضان کی تراویح میں ایک قرآن ہفتہ یا دس دنوں میں سن لیا بس رمضان المبارک کا حق ادا ہوگیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔ تراویح تو دُور کی بات ، پندرہ رمضان المبارک کے بعد سے لوگوں میں فرض نمازیں پڑھنے کا معمول بھی باقی نہیں رہا ہے۔ یہ بڑی محرومی کی بات ہے۔ حضور ﷺ کا معمول تھا کہ رمضان کے آخری دس دنوں کی عبادت میں اضافہ فرما دیا کرتے تھے۔ راتوں کو خود جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو جاگنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ آج ہم مسلمانوں کی کمزوری یہ ہے کہ ہم سے نمازیں ہی وقت پر ادا نہیں ہو پاتیں ہیں۔ اور پھر ہم ظالموں کے خلاف اللہ سے مدد کی امیدیں لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جب تک ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے نہیں ہوجائیں گے۔ جب تک رسول اللہ ﷺ کی سنتوں پر تمام مسلمان عمل پیرا نہیں ہو جائیں گے۔ تب تک اللہ کی نصرت ہمارے لئے نازل نہیں ہو سکتی۔ مولانا ظفرعلی خاں نے کسی موقع پر کہا تھا کہ
قضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اللہ تعالیٰ سبھی مسلمانوں کو رمضانُ المبارک کی قدردانی اور اس مبارک مہینے میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارَبَّ العَالمین