از قلم: مدثر احمد، شیموگہ 9986437327
ایک ہاسٹل میں ہر دن طلباء کو تینوں وقت میں کھانے کے لئے کھچڑی دی جاتی تھی ، ہر دن کھچڑی کھا کر طلباء تھک چکے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کھچڑی کے علاوہ دیگر پکوان بھی بنائیں جائیں ۔ جب اس سلسلے میں طلباء نے اپنی رائے وارڈن کے سامنے پیش کی تو وارڈ ن نے کہا کہ انکی رائے مسترد کی جاتی ہے اور ہر دن یہاں کھچڑی ہی بنائی جائیگی ۔ لیکن طلباء اپنی بات پر اڑے رہے ، بلاآخر وارڈن نے ہاسٹل میں الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ۔ طلباء میں سے 20 فیصد طلباء کھچڑی کے حق میں تھے اور 80 فیصد طلباء کھچڑی کی مخالفت کررہے تھے باوجود اسکے وارڈ ن نے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ۔ جب نتائج سامنے آئے تو کھچڑی جیت گئی۔ دراصل کھچڑی کے حق میں 20 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ کھچڑی کی مخالفت میں کچھ طلباء نے دوسے ، کچھ نے روٹی ، کچھ پراٹھا، کچھ نے سفید چاول اور کچھ نے اڈلی کے حق میں ووٹ کیا جس سے کھچڑی آسانی سے جیت گئی ، لیکن کچھڑی کا مطالبہ کرنے والے 20 فیصد طلباء اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور متحد ہوکر کھچڑی کو ہی ووٹ کیا جبکہ 80 فیصد طلباء کھچڑی کے مخالف ہونے کے باوجود اپنی الگ الگ رائے سے کھچڑی کو ہرانہیں سکے ۔ یہی حالت آج قوم مسلم کے ہر معاملے میں ہے جو کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود کسی ایک فیصلے پر متحد نہیں ہورہے ہیں ۔ سیاسی معاملے کی بات کی جائے تو ہر مسلمان فرقہ پرست طاقت کو ہرانے کی بات کرتاہے اور سیکولر جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی بات کرتاہے لیکن جب ووٹ دینے کا موقع آتاہے تو کوئی کانگریس ، کوئی جے ڈی یس تو کوئی سپا ، یا بسپا کا رخ کرتا ہے یا قوم کی پارٹی کے نام پر ویلفیر ، یس ڈی پی آئی ، یم آئی یم سے ہاتھ ملاتا ہے ۔ جس سے سارے فرقہ پرست مل کر بی جے پی کا ساتھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ پرست آسانی کے ساتھ کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح سے سماجی معاملات میں مسلمانوں کی بات کی جائے تو ہر کوئی کسی نہ کسی تنظیم سے جڑا ہواہے اور جب بات سماجی مسائل کو حل کرنے کی آتی ہے تو کوئی ایک رائے پر متفق نہیں ہوتا جس کا فائدہ دوسرے اٹھاتے ہیں یا مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں ۔ ہر ایک شخص اپنے آپ کو لیڈر ہی بنانا چاہتاہے کوئی کسی کے تابع میں کام کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا ۔ آج ہر گھر میں لیڈر ہیں اور کوئی کارکن ہی نہیں رہا ۔ ان حالات میں مسلمانوں کے مسائل حل ہوں بھی تو کیسے حل ہونگے ؟۔ وہی دینی معاملات کی بات کی جائے تو وہاں بھی وہی حال ہے ، الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے دینی علمبرداروں کی انانیت اور مفادات کی وجہ سے شریعت کو نقصان پہنچ رہاہے اور کوئی بھی شریعت کاعلمبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ مسلک اور گروہوں کا علمبردار بننا چاہ رہاہے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام مسلمان ایک ہوجائیں اور ایک ہی علم کے نیچے کھڑے ہوجائیں بلکہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے اختلافات ، مسلک ، گروہ ، مکتب فکر بھلے ہی الگ کیوں نہ ہوں لیکن اس وقت جو حالات پیدا ہورہے ہیں اس پر غور وفکر کرنے اورمسائل کے حل نکالنے کے لئے ایک ہوجائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ و علی و سلم نے حج الوداع کے موقع پر جو خطبہ دیاہے وہ خطبہ انسانوں کے لئے یو م الحشر تک عمل کرنے والا خطبہ ہے خصوصََا مسلمانوں کے لئے ایک سبق ہے جس پر عمل نہیں ہورہاہے ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے اپنے آخر ی خطبے میں جو پیغام دیا اسکے کچھ نکات اس طرح سے ہیں ۔ اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت اور مال حرمت والے ہیں۔ (تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے )۔ لوگوں کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو،۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو۔ تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے، اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو (معاف کر دو)۔
زبان کی بنیاد پر رنگ نسل کی بنیاد پر تعصب میں مت پڑ جانا کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو۔ برتری صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ یاد رکھو! تم ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے،خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ، نہ کوئی نیا دین لایا جاےَ گا۔ میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، قرآن اور میری سنت، اگر تم نے ان کی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ پیغمبر اسلام کے ان چند باتوں پر مسلمان پورے اخلاص کے ساتھ عمل کرنے لگیں گے تو یقیناََ مسلمانوں کو کوئی بھی مات نہیں دے سکتا اور نہ ہی مسلمانوں کو پیچھے کرسکتاہے ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنےکھچڑی کی مخالفت میں ووٹ کرنے سے پہلے اپنی پسند کی ڈش پر متحدہ فیصلہ کریں پھر دیکھیں کہ کیا نتائج سامنے آئیں گے۔