خدا را فروعی اختلاف سے بچئے اور ملت پر رحم کھائیے

تحریر: راشد حسین ندوی
مہتمم مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور، رائے بریلی یوپی

اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کئی محاذوں سے حملہ آور ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان میں اندلس کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں،ایک طرف منصوبہ بند طریقہ سے کئی لاکھ مسلم لڑکیوں کو ورغلایا جاچکاہے،دوسری طرف اسلام دشمن طاقتوں کی مدد سے ایکس مسلم پوری طاقت سے میدان میں ہیں، کچھ غیر ملکی بھگوڑے مسلسل اسلامی اصولوں پر شبہات پیدا کر رہے ہیں، کچھ نام نہاد غیرمسلم گرو اور مقررین اسلام پیغمبر اسلام اور مسلمانوں پر رکیک حملے کر رہے ہیں، ان کے خلاف کوئی کاروایی تو کیا ہوتی انکی پس پشت پیٹھ تھپ تھپائی جارہی ہے اور ان کے اوپر کاروایی کی مانگ کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور ان پر سنگین دفعات لگائی جا رہی ہیں
حالات ایسے ہیں کہ اس سے ہر صاحب ایمان کے دل میں درد ہونا چاہیے،اور ہر طرح کے اختلافات کو درکنار کر کے اس سے نپٹنے اور ہر محاذ میں ان کا اپنی صلاحیت اور طاقت کے مطابق مقابلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے،لیکن معلوم نہیں کہ یہ باطل طاقتوں کی سازش کا نتیجہ ہے یا حالات کی سنگینی کی وجہ سے کسی فیصلہ تک نہ پہونچ پانے کا شاخسانہ کہ ہمارے جن لوگوں کو باطل سے پنجہ آزمائی میں مشغول ہوناچاہیے تھا وہ اپنوں پر ہی یلغار کر رہے ہیں،چنانچہ بریلوی مکتبہ فکر میں آپس ہی میں تکفیر کا فتنہ زوروں پر ہے،تبلیغی جماعت کے دو ٹکڑے ہوگیے ہیں اور امارت والا شوری والوں کی مسجد میں اور شوری والا امارت والوں کی مسجد میں جماعت نہیں ٹہرا سکتا،حد یہ ہے کہ دیو بند اور ندوہ کے نصاب سے متعلق اختلاف کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے،بڑوں پر رکیک حملے کیے جارہے ہیں، ہرطرح کے طنزو تعریض کا جواز فراہم کیا جارہا ہے،اور یہ سب کر کون رہاہے؟زیادہ تر فارغین مدارس!
کچھ لوگوں کا موضوع ان جماعتوں اور تنظیموں پر طنز و تضحیک اور نکتہ چینی ہے جن کا گراؤنڈ میں کچھ کام ہے اور جن کا لوگوں میں احترام اور کچھ اثر ہے،یہ ان سیکڑوں جماعتوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولیں گے جن کا معاشرہ پر کوئی اثر نہیں ہے ،صرف رجسٹریشن اور کبھی کبھار اخبار کی خبروں سے ہی ان کے وجود کا پتہ چلتا ہے، پھر تنقید تنقید رہے تب بھی غنیمت رہے وہ کھلی ہوئی تنقیص ہوتی ہے جس سے شاید ناقد کو کچھ راحت مل جاتی ہو لیکن اس سے سوائے انتشار پھیلنے کے کچھ نہیں ہو سکتا،مثلا ایک صاحب نے ایک موقر تنظیم کے موقر صدر کو چوڑیاں بھیجنے کا اعلان کیا،اور دیوبند نے نصاب بدلنے کی بات کی تو وہاں کے ذمہ داروں پر ذاتی نوعیت کے حملے کیے گئے۔
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں،مسلمانوں کی چوٹی کی تنظیموں ،چوٹی کے علماء اور مشایخ جنکا اپنے اپنے حلقوں میں اثرہے ان پر اس طرح کی غیر سنجیدہ تنقیدوں سے اگر عوام ان سے بد ظن ہو گیے تو اسلام یا مسلمانوں کا فایدہ ہوگا یاآپ کا یا اسلام کے دشمنوں کا؟
اس لیے میں تمام فا رغین خصوصااپنے مدرسہ کے فارغین سے درخواست کرتا ہوں کہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں،اللہ نے جوصلا حیت دی ہے اس کو اسلام کے دفاع میں لگائیں،شوشل میڈیا پر تنقیدات سے باز آئیں،اس سے صرف ہمارے دشمنوں کو مدد ملےگی عوام کا تمام علماء سے اعتماد اٹھ جاےگا اور دشمنوں کے لئے اندلس کی تاریخ دہرانا آسان ہو جایے گا ولا قدر اللہ ذلک۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے