سيدنا حسين۔۔۔۔ جنتی نوجوانوں کے سردار

تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس :مرکز الاحسان للدعوة
رابطہ نمبر:6005465614

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بتاریخ ۵ شعبان المعظم ۴ ھجری میں پیدا ہوۓ۔نبی کریم ﷺ نے ان کا نام خود حسین رکھا۔ سیدنا حسین حسن یوسف کے مالک تھے، ان کی شکل و صورت سرتاج رسل نبی کریم ﷺ کے مثل تھی۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور سید شھید، طیب وغیرہ ان کے القاب ہیں۔ آپ کے والد محترم خلفیہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں اور والدہ محترمہ دختر نبوی ﷺ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ والد محترم رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا کیا کہنا کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے تعلق سے ھارون علیہ السلام کی نسبت عطا فرمائی۔لیکن نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا اہل ایمان کی صفت خاصہ ہے جبکہ ان سے عداوت نفاق اور زندیقیت کی نشانی ہے۔غدیر خم کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے علانیہ ارشاد فرمایا تھا کہ "جس کا میں دوست، سردار اس کا علی بھی دوست، سردار”.سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ فاتح خیبر اور نبوی ﷺ زبان مبارک کے مطابق ابو تراب ہیں۔سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ رضی اللہ عنہا کا کیا کہنا کہ جو اہل جنت خواتین کی سردار ہیں۔

                 حسن حسین

امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کے تحت یہ روایت نقل کی ہے کہ، "جب عبیداللہ بن زیاد(ملعون) کے پاس ایک تشت میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا تو وہ زندیق اس پر لکڑی سے مارنے لگا اور آپ کے حسن اور خوبصورتی کے بارے میں کچھ کہا۔ اس پر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سیدنا حسین رسول کریمﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے اور آپ کا سر وسمہ سے رنگا ہوا تھا”.(مناقب الحسن والحسین) ایک بار عصر کے وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین کو کھیلتے ہوئے دیکھا تھا تو فرمایا تھا کہ،”تم تو رسول اللہﷺ کے مشابہ ہو، علی رضی اللہ عنہ کے نہیں ".اس بات پر علی رضی اللہ عنہ مسکرا پڑے تھے۔ (بخاری)

                حب نبوی ﷺ

سرتاج رسل ﷺ نے بیان فرمایا کہ، "یہ دونوں یعنی حسن و حسین دنیا میں میرے پھول ہیں”.(صحیح بخاری) سیدنا حسنین کریمین جب نبی کریم ﷺ کے شانہ مبارک پر سوار ہوتے تو زبان وحی سے یہ عظیم الفاظ جاری ہوجاتے، "اے میرے رب! جس طرح میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں ، تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان دونوں کو محبوب رکھے تو بھی اسے محبوب بنالے”.(جامع ترمذی)

     حب ابوبکر عبداللہ بن عثمان

محبت صحابہ و اہل بیت ایمان کی اہم ترین شاخ ہے۔ صحابہ و اہل بیت سے بغض و عداوت رکھنے والا زندیق ہے۔خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ حسنین کریمین کو دیکھتے ہی انہیں گود میں اٹھا لیتے تھے اور لوگوں کو اس بات کی تلقین کرتے کہ اہل بیت کے حقوق ادا کرو۔ (تاریخ الخلفاء) یہ ہوا دشمن نے پھیلائی ہوگی کہ صحابہ اور اہل بیت میں کسی قسم کی عداوت تھی ، وہ تو سراپا محبت اور الفت کے پیکر تھے۔

               حب عمر فاروق

سیدنا حسین اور سیدنا عبداللہ بن عمر حالت طفل میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے اور جب دونوں میں کوئی رنجش پیدا ہوتی، فاروق اعظم خود ان کے درمیان صلح کراتے۔ صحابہ اور اہل بیت کے درمیان جو مقابلہ کیا جاتا ہے وہ باطل ہے، صحابہ کرام کے درمیان موازنہ کرنا انتہائی غیر منھجی حرکت ہے۔

          حب عثمان ذی النورین

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وہ سعادت مند صحابی و خلیفہ راشد ہیں جن سے امام کائنات بھی حیا کیا کرتے تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ شہادت عثمان کے بعد ہر مجلس اور ہر محفل میں انکی ثناخوانی کرتے، ان کے اوصاف عظمیٰ لوگوں کو سناتے اور لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیتے۔ (تاریخ الخلفاء) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح اسناد سے موجود ہے کہ انکی شھادت سے قبل انہوں نے نبی کریم ﷺ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ "اے عثمان آج کی رات افطار ہمارے ساتھ کرنا ".قرآن کی تلاوت کرتے کرتے انہوں نے شھادت پائی۔

                فضائل حسین 

فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "حسين مني وأنا من حسين”، "حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں”.(جامع ترمذی) اگر فضائل حسین میں بس یہی ایک روایت ثابت ہوتی، یہی کافی تھی۔مجمع الزوائد، مسند ابی یعلیٰ کے اندر روایت نقل کی گئی ہے کہ، "جو کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ حسین کو دیکھ لے”.(وسندہ صحیح) کنزالعمال میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، "جبریل ابھی میرے پاس آۓ اور انہوں نے مجھے بشارت دی ہے کہ بیشک حسنین کریمین نوجوان جنت کے سردار ہیں ".سلف صالحین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ” حسنین کریمین کے اسماء اہل جنت کے ہیں ".(الاصابہ)
ایک روایت یہ بھی کتب رجال میں موجود ہے کہ، "اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا”.(تھذیب الاسماء) اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں آل علی کی فضیلت میں آیت تطھیر بھی نازل فرمائی۔ امام نسائی رحمہ اللہ تعالیٰ نے السنن الکبریٰ کے اندر یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ، "جس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں سے محبت کرے یعنی حسنین کریمین”.(صحیح ابن خزیمہ، سنن نسائی، مسند بزار) معجم طبرانی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، "جس نے حسنین کے ساتھ بغض رکھا اس نے مجھ سے ہی بغض رکھا”.(معجم کبیر، مسند احمد) میں چاہتا ہوں کہ آیت تطھیر کے بارے میں بھی اختصاراً کچھ لکھا جائے۔ سیدہ عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آگئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آگئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد سیدہ فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا} اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي”.(تفسیر طبری) یہاں غور طلب مسئلہ ہے کہ آیت تطھیر کو بیان کرنے والوں میں ایک نام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی ہے جو صراحتاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عدل کے اعلی معیار پر فائز تھی اور محبت حسنین کریمین میں پختہ بلکہ سبقت لینے والوں میں سے تھیں۔ امام ابن عطیہ، امام نووی ، امام ابو منصور الاظھری رحمہم اللہ کے کلام کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے آیت تطھیر میں مخاطب ہونے والوں کو شیطانی حملوں، نجس امور و نقائص، برے عقیدے، شک اور عذاب سے محفوظ فرمایا ہے۔

                وصیت نبوی ﷺ

مصنف ابن ابی شیبہ، طبقات ابن سعد، مجمع الزوائد میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، "آگاہ ہوجاؤ! میرا جامہ دان جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہل بیت ہیں اور جماعت انصار ہے۔ ان کی خطاؤں کو معاف کرو اور ان کے حسنات کو یاد رکھو ".امام حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ نے المستدرک کے اندر یہ روایت اپنی سند سے نقل کی ہے ، ” میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت یعنی اہل بیت”.(مستدرک حاکم، مسند احمد) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "میرے اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو”.

                 اقوال حسین 

صاحب اسد الغابہ رقمطراز ہیں کہ، "سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بڑے نمازی، روزے دار ، بہت حج کرنے والے ، بڑے صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کو کثرت سے کرنے والے تھے”.(ج۱ ص ۲۶۵) سیدنا حسین فرماتے ہیں کہ، "سچائی عزت ہے، جھوٹ ذلت ہے، رازداری امانت ہے، ہمسائیگی قرابت ہے، امداد دوستی ہے، عمل تجربہ ہے، حسن خلق عبادت ہے، خاموشی زینت ہے، بخل فقر ہے، سخاوت دولت مندی ہے اور نرمی عقلمندی ہے”.(تاریخ یعقوبی) فرمان حسین ہے کہ، "قیام اللیل کے لئے فقط جمعہ کی رات مخصوص نہ کرو یونہی روزے کے لئے بھی فقط جمعہ کا دن مخصوص نہ کرو ".(سنن کبریٰ بیہقی)

           شہادت کی پیشنگوئی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی یہ فرمایا تھا کہ جبریل علیہ السلام نے ان کو خبر دی کہ اپ کے اس بیٹے یعنی حسین کو شہید کردیا جائے گا۔صحیح صریح روایات سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ کو وہ مٹی، وہ جگہ بھی دکھلائی گئی تھی جہاں پر سیدنا امام حسین کے مبارک خون کو بہایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کو بھی اس بات کی خبر دی تھی۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سٹھ (60) ہجری سے پناہ طلب کیا کرتے تھے، اللہ نے انکی دعا قبول کرلی اور شھادت سے قبل ہی آپ وفات کرگئے۔بعض مسلمان اس سلسلے میں بھی افراط و تفریط کے شکار ہیں جس سے پرہیز لازمی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ، "میں نے ایک دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جس طرح سونے والا خواب دیکھتا ہے ، پراگندہ اور خاک آلود پاؤں تھے ، نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بوتل تھی جس میں خون تھا ، میں نے کہا ‘میرے والدین آپ پر قربان ہوں۔۔ یہ کس کا خون ہے؟ جواباً نبی کریم ﷺ نے فرمایا، "یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے ، جس کو میں آج چنتا رہا ہوں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے اس دن کو یاد رکھا تو میں نے پایا کہ ان کو اسی دن شہید کیا گیا”.(مسند احمد،شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے)

حق ہو ستیزہ کار تو باطل ہو سر نگوں
دم بھر میں تار تار ہو شیرازۂ فسوں
دکھلا دیا حسینؓ نے اپنا بہا کے خوں
کرتے ہیں دیکھ سینۂ باطل کو چاک یوں

    قاتلینِ حسین اور ہمارا منھج 

اہل السنہ والجماعت کے عقائد میں بنیادی عقیدہ حب صحابہ و اہل بیت ہے۔ اہل بیت و صحابہ کرام ہمارے اسلاف تھے۔ یہ جماعت اللہ عزوجل کی طرف سے منتخب کردہ جماعت ہے۔ صحابہ و اہل بیت سے محبت ایمان ہے، ہمارے دل اور ہماری زبانوں سے ہمیشہ انکی ثناخوانی ہی کی جاۓ گی۔ان سے عداوت سرکشی، زندیقیت، کفر و نفاق ہے۔ ایک کروڑ اولیاء بھی آجائیں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نعلین سے اٹھنے والی دھول کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔یہ بات واضح رہے کہ قاتلین حسین کے بارے میں جو روایات معتبر ہے ان پر ہی اعتماد کیا جائے گا۔ اور جن کی شمولیت ثابت نہیں ان پر کلام نہیں کیا جائے گا۔ سیدنا حسین صحابی رسول، نواسہ رسول، فرزند علی و فاطمہ ہے۔ کس طرح ایک صحابی کا مقابلہ غیر صحابی سے کیا جاسکتا ہے۔ جو افراد بھی شھادت حسین میں شامل ہیں، کسی بھی طرح ۔۔۔۔۔وہ سبھی افراد زندیق اور ملعون ہیں۔ آل رسول پر ظلم و تشدد کرنے والے کس طرح اسلام کے مطیع ہوسکتے ہیں۔ ہماری جان فدا ہو آل رسول ﷺ پر۔اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ بعض شر پسند عناصر یزید کی آڑ میں صحابہ کرام پر تبرا کرتے ہیں۔یزید کے معاملے میں علماء کی مختلف آراء و اقوال مؤرخین و محدثین نے درج کی ہیں، بہتر یہی ہے کہ اس معاملے میں سکوت اختیار کی جاۓ۔ البتہ کسی بھی طرح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے درمیان مقابلہ نہیں کروایا جا سکتا۔

سیدنا ابراھیم نخعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ، "اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنہوں نے سیدنا حسین کے ساتھ لڑائی کی پھر میں جنت میں داخل ہوجاتا البتہ میں شرم محسوس کرتا کہ نبی کریم ﷺ کے چہرے مبارک کی طرف دیکھوں”.(معجم کبیر طبرانی، حسن) شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ مجموع الفتاوی میں رقمطراز ہیں کہ، "جس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شھید کیا یا اس کے قتل پر مدد کی یا اس کے قتل پر رازی ہوا۔ ایسے زندیق پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور پوری انسانیت کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے زندیقوں کی نہ فرضی عبادت قبول کرے نہ ہی نفلی”.

صاحب تحفتہ الاحوذی محدث مبارکپوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ، "سیدہ فاطمہ کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا تکلیف ہوسکتی ہے کہ ظالموں نے ان کے لخت جگر کو شھید کردیا۔ یقیناً یہ قاتلینِ دنیا میں بھی بدترین انجام کو پہنچے۔۔ ولعذاب الآخرة أشد”.

اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں صحابہ و اہل بیت کی محبت عطا کرے، ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت فرماۓ۔۔۔
آمین یا رب العالمین۔