کیا ہم خود کو بدلنے تیار ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ تاکہ حالات کو بدلا جا سکے

ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ فون نمبر:9849099228

روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر و مالک، فداے ملت، حضرت مولانا ظفر علی خان صاحب مرحوم نے جو ایک بڑے شاعر بھی تھے، ملت اسلامیہ کو جگانے اور ان کے اندر شعور بیدار کرنے ایک ہی شعر میں پوری بات بتلادی جو آج بھی لمحہ فکر دے رہی ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

غالباً اس شعر کو بابائے اردو صحافت نے قرآن حکیم کی (سورۃ الرعد:۱۱) کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا ہوگا، جس کی ترجمانی اس طرح ہے۔
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘ (ترجمانی از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ انسانی زندگی نقل وحرکت، سعی وعمل سے ہی عبارت ہے، ورنہ اسے فالج زدہ یا نیم مردہ اجسام کہا جائے گا۔ اگر انسان کی بناوٹ و ساخت پر غور کریں اور اس کی صلاحیتوں و طاقتوں اور جرأت و برداشت، لیاقت واستعداد کا اندازہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ تخلیق انسان کا مقصد اور ان کی زندگی، حرکت عمل کے بغیر ناممکن ہے۔ جناب اسلم طار ق بھٹی صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ ہاتھ اور ان کی قوت گرفت، یہ پائوں اور ان کی قوت خرام، یہ آنکھیں اوران کی قوت بصارت، یہ کان اور ان کی قوت سماعت یہ زبان اورا س کی قوت گویائی وبیان، یہ دل اور اس کی قوت احساس، یہ دماغ اور اس کی صلاحیت فکر وخیال اور قوت عقل و تدبیر وغیرہ ساری کی ساری چیزیں بتا رہی ہیں کہ انسانی زندگی سعی و عمل اور نقل و حرکت ہی سے عبارت ہے، آیت شریفہ ’’لیس الانسان الا ما سعیٰ‘‘ میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اگر انسان کی داخلی حیثیت کی طرف سے صرف نظر کرکے اس کے خارجی ماحول کو دیکھا جائے تو بھی ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اجرام فلکی کی گردش، صبح و شام کا ظہور، برق و باراں کے ہنگامے، ہوائوں کی تعریف اور بحر ذخار کا تلاطم غرض کہ کائنات کی ایک ایک شئے کی جنبش و حرکت زبان و حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ زندگی حرکت و عمل کا دوسرا نام ہے۔ (اقتباس) علامہ اقبالؒ حرکت عمل کو زندگی قرار دیتے ہیں:

کیوں تعجب ہے مری صحرا نَوردی پر تجھے
یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل

علامہؒ کی نگاہ میں صحر نوردی مسلسل حرکت کا استعارہ ہے، جو اس حقیقت کو روشن کرتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے اور انسان کیلئے حرکت وعمل کے بغیر زندگی حقیقی زیست نہیں کہلاتی۔
آج ہمارے سامنے جو حالات آرہے ہیں یہ وہی حرکت وعمل کے انجماد اور غیر متحرک ہوجانے کا نتیجہ ہے، شعور والی آنکھ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اب ساری دنیا میں ہر نیا د ن نئی آزمائش اور ظلم وستم کی خبر کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔
دوسری جانب ملت کی جو صورتحال ہے اور ان کے اندر بے عملی و کوتاہی جو پنپ گئی ہے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ (الاماشا اللہ) اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اپنے مالک سے بے وفائی کررہے ہیں، ہماری زندگیوں میں نفاق کی کیفیت پائی جارہی ہے، تھوڑے سے مفاد دنیا کیلئے، دین پر کنارہ کنارہ چلنا ہنر سمجھا، اپنے مفاد کو ملت کے مفاد پر ترجیح دینے لگے، اللہ تعالیٰ کی محبت میں کمی، مال و دولت پر فریفتہ ودلدادہ ہوئے، کیا ہم اپنے آپ کو بدلے بغیر حالات کے بدلنے اور اس میں تبدیلی کی امید کرسکتے ہیں؟ آج وہ کونسا کام ہم نہیں کررہے ہیں جو ایک دنیا پرست دین بیزار ومنکر آخرت شخص کیا کرتا ہے (الاماشا اللہ) آج ملت اسلامیہ ہند کی حالت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بے عمل اور سہل پسند ہوچکی ہے، قرون اولیٰ میں شاہینیت پائی جاتی تھی اب آسمان ان شاہینوں سے خالی نظرآتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر کامل اعتماد و توکل میں کمی نے ہمارے اندر بے یار و مددگار ہونے کا احساس پیدا کردیا، عقیدہ وعمل میں کجی نے ملت کے اندر باطل سے مرعوبیت پیدا کرچکی، ایمان میں توحید، اعمال میں سنت نبویؐ نے سابقون الاولون میں جو جذبہ وحوصلہ اور قربانی پیش کرنے کی جو اسپرٹ پیدا کرچکی تھی شاید ہم لوگ اسے گنواں چکے!
آج باطل ہر طرف غرا رہا ہے، گھمنڈ و تکبر کرتے دکھائی دے رہا ہے، تنک مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اعلانیہ طور پر دن کے اجالے اور قانون کے رکھوالوں کی موجودگی میں مسلمانان ہند کے بارے میں نفرت پھیلائی گئی اور صاف ذہن ہندو برادری کو مشتعل کرنے کیلئے ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا، اس طرح ملک عزیز ہندوستان کی ہر ریاست میں ظلم کی چکی تیزگام ہوچکی ہے جس میں مسلمان ہی زیادہ پسے جارہے ہیں، یوں تو آزادی ہند کے بعد سے ہی مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی اور اس کے لیے نصف صدی سے زمین ہموار کی جاتی رہی، لیکن مسلمانوں کے خلاف جو کام پچھلے60 برسوں میں نہیں ہوا جتنا کہ حالیہ گزرے ہوئے 15برسوں میں ہوا۔ ملک میں جمہوریت مخالف اور فسطائی و جبرو تشدد پر یقین رکھنے والی طاقتیں اس ملک کی ہمہ رنگی تہذیب و تمدن کی جگہ ایک خاص طریقہ زندگی کو مروج کرنا چاہتی ہیں، لہٰذا اب مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور ان کے بنیادی عقائد اور عبادات پر بھی خطرات کے کالے بادل منڈلا رہے ہیں اور ہر طرف شمال سے جنوب تک چھا چکے ہیں، اور روزانہ یہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں برس پڑتے ہیں، نتیجتاً اس ملک کی ایک بڑی اقلیت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، (سورۃالرعد:۱۱) کی ترجمانی: کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان مرحوم نے مسلمانوں کو آگاہ فرما دیا تھا کہ جو قوم اپنی حالت کو بدلنا نہیں چاہتی اور اپنی بے عملی کی زندگی سے نکلنا نہیں چاہتی تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں باعمل ہونے کی نہ توفیق بخشتا اور نہ ہی ملک مرض سے نجات دیتا ہے۔

آج ہمارے ملک میں فسطائیت، فرقہ پرستی و تعصب اور مذہبی طرف داری کا مرض عام ہوگیا جس کی زدمیں ملت اسلامیہ جکڑی جارہی ہے، اس مہلک مرض سے نکلنے کیلئے ہر آدمی اپنے اپنے طبع ذات طریقہ اپنا رہا ہے اور ہر طریقہ ونسخہ لاعلاج ثابت ہورہا ہے، شاد لکھنوی نے بہت درست بات کہی، وہ ایک شعر کے مصرع ثانی میں کہتے ہیں: ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ یہ امت اپنے پسندیدہ ملک عزیز ہندوستان میں پچھلے 70 برسوں میں مالی و جانی نقصان اٹھا چکی، عزت و آبرو کے علاوہ عصمتوں کو بھی لٹا چکیں، اب جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے وہ یہ کہ ان کا مذہبی تشخص اور ان کے شخصی مذہبی قوانین پر حملے ہورہے ہیں، پچھلے سال قرآن میں تبدیلی کی نامعقول بات کہی گئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا و ناشائستہ بیانات دئیے جاتے رہے، ایک خاص مذہبی اسٹیج سے مذہبی رہنمائوں نے مسلمانوں کے قتل عام پر لوگوں کو اکسایا، مسلم خواتین کے تعلق سے (ناقابل بیان) اعلانیہ طور پر گندی وبے حیا باتوں کا پرچار کیا گیا۔ اب مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کی بات کی جارہی ہے۔ اگرچہ کہ یہ ابھی تعلیمی اداروں تک محدود ہے لیکن آگے کے ایام میں اس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اسلامی مدارس کے نصاب پر بھی انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ وہ دن قریب محسوس ہورہے ہیں کہ ان کے نصاب پر بھی کنٹرول کیا جائے گا، کرتا پاجامہ جالی دار ٹوپی کا بار بار حوالہ دیا جارہا ہے تاکہ مسلمان آگے چل کراس امتیازی نشانی سے بھی مجتنب ہوں۔ ایک اور دل دہلادینے والی بات یہ کہ مسلم نوجوان لڑکیوں کو نام نہاد محبت کے جال میں پھنسا کر مرتد بنا دینا اور کسی بھی نوجوان پر جھوٹے الزام لگا کر اس پر ہجومی تشدد کرتے ہوئے زخمی کرنا اور موت کے گھاٹ اتار دینا وغیرہ ان ساری باتوں پر امت کو سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینا چاہئے تھا، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ بے حسی وبے عملی کا شکار ہوچکا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ غلط روی، بے راہ روی اور جملہ غلط کاریوں سے مکمل اجتناب کریں اور جب تک ملت کے ایک ایک فرد کے اندر صالح ارتقائی کیفیت پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک ایک انقلابی و مثالی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ موجودہ حالات میں تبدیلی و حصول امن و سلامتی اور فلاح و کامیابی کی منزل تک پہنچنے کیلئے ملت اسلامیہ ہند کو اپنے اندر سے کج اعتقادی و عملی گمراہی سے انفرادی و اجتماعی ہر طور پر باہر آنا ہوگا، اگر ہم موجودہ ڈگر پر چلتے رہیں گے تو منزل مقصود کو پانا محال ہوجائے گا، نتیجتاً دنیا کی ذلت وآخرت کی رسوائی مقدر بن جائے گی۔
آزادی ہند کے بعد سے آج تک ہم کئی منزلیں طے کرچکے اب ہمارے سامنے ایک نئی اور کٹھن منزل ہے اسے پار کرنے کیلئے ہمیں ازسر نو غور کرنا ہوگا، بحیثیت مسلم و مومن اپنے حقیقی منصب ونصب العین پر پوری توجہ اور اخلاص کے ساتھ گامزن ہونا ہوگا، اپنی عبادات، اپنے اخلاق، اپنی معاشی ڈگر، اپنی معاشرت اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے سارے معاملات کا انفرادی و اجتماعی جائزہ لینا ہوگا، تب جاکر اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوگی، اگر ہمارا کارواں بے راہ روی وبے ڈھنگے طریقہ پر چلتا رہا تو ہماری منزل ہم سے بہت دور ہوجائے گی، اسی فکر کو ذہن میں رکھ کر شاعر نے کہا ہے کہ ’’غلط روی سے منازل کے بعد بڑھتے ہیں‘‘ ملک میں نئے نئے مسائل جو پیدا ہو رہے ہیں، امت کو جن مشکلات کا سامنا درپیش ہے اس پر قابو پانے کیلئے میدان عمل میں آنا ہوگا۔ متحرک قیادت کو پروان چڑھانا ہوگا جو کسی بھی مسلک سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں کو ملت واحدہ بناکر ان میں اتحاد و اتفاق پیدا کرے اور ان کے حقیقی نصب العین کی طرف رہنمائی کرے۔ ان ہی حالات کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے۔

نیا سفر ہے نئی منزلیں بلاتی ہیں
مسافرو روش کارواں بدل ڈالو