شیخ یوسف القرضاوی ستاروں کی انجمن میں (دوسری قسط)

تحریر: محمد نوشاد نوری قاسمی
رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین
ورکن رابطۃ تلامیذ القرضاوی العالمیۃ

ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلاؤگے روشنی کے لیے

حضرت “شیخ یوسف القرضاوی ؒستاروں کی انجمن میں”کی دوسری قسط پیش ہے، شیخ کے بارے میں جن مشاہیر نے تاثرات کا اظہار فرمایاہے،ان میں ایک بڑا نام محدث جلیل حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ کا ہے، یہ قسط ان کے تاثرات کے لیے مخصوص ہے۔
(1)شیخ عبدالفتاح ابو غدہؒ:
حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ حلبی (1917ء۔ 1997ء)عالم اسلام کے نامور عالم دین اور محدث ہیں،حدیث وفقہ میں انہیں کافی درک اور امتیاز حاصل تھا،ساتھ ہی وہ دعوتی اور تحریکی کاموں میں بھی پیش پیش رہے، جس کی وجہ سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں،بالآخر ملک شام سے جلاوطن کردیے گئے اور 1995ء میں سعودیہ کی اقامت اختیارکی، جہاں تاحیات اپنا علمی فیضان جاری رکھا، حضرت فقہ میں امام ابوحنیفہ ؒ کے مقلد تھے، علوم اسلامیہ بالخصوص حدیث وفقہ میں علماے ہند کی خدمات کے دل سے معترف تھے، علماے دیوبند کی تجدید ی سرگرمیوں کے بڑے مداح اور قدرداں تھے، شیخ نے اپنی معروف کتاب ’’تراجم ستۃ من فقہاء العالم الإسلامی‘‘ میں، (جوعالم اسلام کے چھ نامور فقہاء کے تذکرہ پر مشتمل ہے)سب سے پہلے امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒکابہت اہتمام سے تذکرہ کیا ہے،جو علامہ کشمیریؒ اور جماعت دیوبندسے ان کی قلبی وابستگی کو واضح کرتا ہے، شیخ یوسف القرضاوی ؒ کی طرح شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ بھی اخوان المسلمون کے رہنماؤں میں تھے، شیخ عبدالفتاح ابو غدہ ؒ نے اپنے ایک مقالہ میں شیخ یوسف القرضاوی ؒ کے بارے میں، اپنے قیمتی تاثرات قلم بند فرمائے ہیں، جس کے اہم اور بنیادی نکات یہاں درج کیے جاتے ہیں:
’’اس طرح کی (جامع صفات رکھنے والی) شخصیات سلف صالح کے دور میں بھی بہت کم تھیں اور آج کے دور میں تو اقل قلیل ہیں، انہی اقل قلیل میں ہمارے بھائی عالم، فقیہ، مرشد، علامہ جلیل ڈاکٹر جمال الدین ابو المحاسن شیخ یوسف القرضاوی ہیں‘‘…’’شیخ اپنے فضائل وکمالات کی وجہ سے تعریف سے بے نیاز ہیں؛ لیکن محبت اور ان کی خدمات کی قدردانی کا تقاضا ہے کہ ان کی خوبیوں کو سراہا جائے، حدیث میں ہے:’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو همارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، همارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے عالم کے حق کو نہ پہچانے‘‘(مسند احمد)۔ہمارے اوپر ان کا بڑا حق ہے، انہوں نے علم، دین، تربیت اور اصلاح کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، اللہ تعالی نے انہیں بلند اخلاق، علمی تعمق، اصابت راے، واضح اور خالص اعتدال عطا فرمایا، اس لیے ان کے علوم اور خطبات نے مشرق ومغرب اور عرب وعجم میں دلوں کو فتح کیا، اللہ تعالی نے انہیں تواضع، حسن سلوک، اور دیگر مکارم اخلاق سے آراستہ کیا ہے، ان کی زندگی میں نہ تکبر ہے، نہ غرور، نہ تعصب ہے اور نہ عجز ودرماندگی، نہ تملق نہ تکلف اور نہ عالمان شان كے خلاف كوئي كام؛ بلکہ غیرت وخود داری کی اس صفت سے آراستہ ہیں، جو ہردور میں مردان حر کی شناخت رہی ہے‘‘۔
شیخ قرضاوی کے فقہی منہج کے بارے میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ رقم طراز ہیں: ’’اس عالم جلیل کی فقہ،عملی زندگی اور واقعی صورت حال سے مربوط ہے، جس میں دین اور امت کے لیے آسانی دونوں کی رعایت ہے، نہ تکلف، نہ تقشف، نہ فساد فکر ونظر؛بلکہ ایک ایسی فقہ، جس میں دلیل، علت، تقوی اور اصول پسندی کا غلبہ ہے، شیخ فقیہ النفس والبدن ہیں، عام زندگی کے بیشتر پہلوؤں پر شیخ نے خوب لکھا ہے، کچھ مسائل میں الگ راہ اپنائی ہے؛ مگر وہ ان کے دریائے حسنات کا ایک قطرہ بھی نہیں، حضرت امام مالک پہلے ہی فرماگئے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا، ہر انسان کی بات میں رفض وقبول کا پورا امکان موجود ہے،…’’ہمارے بھائی شیخ یوسف القرضاوی کے لیے اللہ تعالے نے فقہ کو آسان کیا اور فقہ کو ان کے لیے آسان بنایا، اس لیے انہوں نے خوب کام کیا اور فائدہ پہونچایا، اللہ تعالی نے شیخ کو سیال قلم، حاضر ذہن، زندہ اور تابندہ علم،حکمت وبصیرت اور قابل قدر اخلاص عطا فرمایا ہے، ان صلاحیتوں سے شیخ قرضاوی نے بعض متساہل علماء کے شاذ قسم کے فتاوی کی تصحیح کی، علمی مسائل میں کچھ اہل قلم کی کجی درست کی اور صحیح اور غلط کا فرق واضح کیا، جس میں پختہ فکر، ادب شناس عالم کا ادب اور باتوفیق فقیہ کا علم شامل ہے‘‘۔
’’اس عالم جلیل کی زندگی، سلف کی حقیقی پاکیزہ صاف ستھری زندگی کا پرتوہے، جس میں عالمانہ مؤمنانہ دلآویز قدوہ کی شان ہے، جو ان سے ملتا ہے محبت کرتا ہے، جو انہیں سنتا ہے فائدہ اٹھاتا ہے اور جو انہیں پڑھتاہے، ہدایت پاتا ہے اور ان کی تحریر کو بنظر استحسان دیکھتا ہے۔
’’یہ مختصر سی تحریر، در حقیقت شیخ کے مقام اور فضل وکمال کے لیے ناکافی ہے، ان کی خدمات، کارناموں، عوام وخواص میں ان کے اثرات، تعلیم وتربیت، تصنیف وتالیف اور مشکل حالات میں ان کے جرات مندانہ اقدام کے لیے توایک بڑا دفتر چاہیے‘‘۔
ماخذ: یوسف القرضاوی:کلمات فی تکریمہ وبحوث فی فکرہ وفقہہ، صفحہ39تا 42

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے