تحریر: زین العابدین ندوی
مقیم حال: لکھنو
انسانی سماج کا تجزیہ کرنے پر ایک مسئلہ مشترکہ طور پر نظر آتا ہے وہ ہے پریشانی و دشواری کا ہر طرف پہرہ، چہار جانب شکوہ کر رہی زبانیں، ناشکرے پن کا بڑھتا رواج، ہر فرد بشر کسی نہ کسی پریشانی میں ایسا الجھا ہوا ہے جسے سلجھا پانے سے وہ لاچار و بے بس دکھائی دیتا ہے، آخر ایسا کیوں؟ اگر ایسا ہے تو اس کے سبب کیا ہے اور اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ طول طویل تحریر سے بچتے ہوئے آج اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
یہ سچ ہے کہ دنیا میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنے آپ سے پریشان اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہے، اسے کسی پل سکون نہیں ہر لمحہ بے قراری کی کیفیت رہتی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے خود پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے جس سے وہ ہر پل دبا جاتا ہے اور اسے سہنے کی تاب نہیں رکھتا، آپ سوچتے ہوں گے وہ ضرورت سے زیادہ بوجھ کیا ہے؟ کائنات میں موجود ہر شئی کا ایک دائرہ عمل ہے اس سے جب بھی قدم آگے نکالا جائے گا تو پریشانیاں لامحالہ اس کا مقدر بن جائیں گی، حضرت انسان کے ذمہ بس اتنا کام ہے کہ وہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی طرف سے آخری درجہ کی کوشش کرے اور بالکل بھی لاپرواہی نہ کرے اور پھر نتیجہ کو اللہ کے حوالہ کردے، اب نتیجہ خواہ موافق ہو یا مخالف اس پر راضی ہو جائے اور یہ یقین رکھے کہ میرے لئے یہی اس وقت مناسب تھا، اور پھر رضائے الہی پر قانع و صابر ہو جائے، اس نسخہ پر عمل کرنے والا شخص کچھ نہ رکھتے ہوئے بھی جملہ چیزوں کا مالک ہوتا ہے ،اس لئے کہ یہ اس کے رب کا فیصلہ ہے ، گویا اپنی آخری درجہ کی کوشش کے بعد رضائے الہی پر قانع ہو جانا سکون و اطمینان کا راز اور ابدی کامیابی کی کنجی ہے۔۔۔
اب تو ہر کوئی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ بظاہر پریشانیوں کا پہرہ کیوں ہے، اس لئے ہم نے فیصلوں کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے، اپنے موافق فیصلوں پر ایسے اتراتے ہیں کہ نعوذ باللہ شرعی حدود کو پامال کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے ہیں اور اس کے بر عکس جب حالات کی مار پڑتی ہے اور فیصلے مخالف ہوتے ہیں تو مایوسی کا ایسا عالم ہوتا ہے کہ معاملہ خود کشیوں تک پہونچ جاتا ہے۔۔۔
بلا معذرت یہ بات عرض کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم میں سے اکثریت ان کی ہے جو اپنے دائرہ شوکت میں فرعون بنے ہوئے ہیں، اس لئے پریشان ہیں۔۔۔۔
اللہ ہمیں قناعت اور رضائے الہی پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔ آمین یا رب