میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

7061674542

آندھیاں چلتی ہیں طوفان بپا ہوتا ہے سیل عرم کا ابال آتا ہے تو پھر دروبام لرز اٹھتا ہے ، اور اپنی ہلاکت و بربادی کی دہائی دینے لگتا ہے ، نفس کی شر انگیزیاں دم توڑ دیتی ہیں ، اجسام خاکستر ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر آرزو ہر امیدیں کرختگی لئے ہوۓ دم واپسیں کا سماں باندھ لیتی ہے ، یہ ایسی غارت ہوتی ہے جو تیر و تفنگ سے نہیں روکا جا سکتا نیزہ و بھالہ اس کی رکاوٹ میں ہار مان لیتے ہیں ، اس کیلیے ایک سکون چاہئے جس کے ساتھ عقل اپنی تدبیریں کرے اور اور کارگاہِ عالم کو اس جنجال سے نکال کر عافیت بخشے ،
یہی حال انسانی معاشرے اور سماج کا ہے کہ وہاں کے آپسی عداوتوں آپسی عناد آپسی خلش آپسی رنجش پر باندھ باندھنے کیلے کسی طاقت و ہتھیار کی ضرورت نہیں بلکہ ایک پیغام ہے ۔۔۔۔ پیغام محبت ۔۔ جس کو دلوں میں پیوست کرکے ، عقل و شعور میں محبت کے تانے بانے کو جوڑ انسانی اجسام میں پرو کر آپس میں جسد واحد کا بگل بجا دیا جائے ، پھر کسی فضا میں اخوت و محبت کے بیج کو تلاش کیا جائے ،
پیغام محبت ۔۔۔ ایسا ہتھیار ہے جس نے مردوں کو مسیحا کردیا ، ستم گروں کے عقل میں سوز و گداز پیدا کیا ، پتھر دل میں شیریں چشمہ جاری کردیا ، شرابی کبابی کے خوگر کی عقلوں کو کچوکے لگایا ، اصنام پرستوں کو وحدانیت کا سبق سکھایا ، حیوانیت کے دلدل میں پھنسے آھوؤں کو صاف ستھری زنگی عطا کی ، جانی دشمنوں کو بھی درگزر کرنا سکھایا ،
ہم اپنی تاریخ کے آخری اسٹیج پر جائیں تو وہاں اخری میسینجر کی شکل میں ایک گوہر نایاب نظر آتے ہیں جس کی ضوفشانی نے ظلمت کدہ عالم کو تابانی بخشی ، اپنا پیغام ہتھیار سے نہیں بلکہ ۔۔۔ پیغام محبت ۔۔ کے ذریعہ انسانی قلوب تک پہچایا اور وہ انقلاب عظیم پیدا ہوا جس کا ماضی میں کوئی تصور نہیں تھا ،
ہم اسی کے ادنی غلام ہیں ، وہ ہمارے لئے ایک انمول رہبر ہیں ، ہمارا آئیڈیل ہے ، گوشہ گوشہ اور چپہ چپہ تک اس کا پیغام محبت ہمارے ذریعہ سے پہنچنا چاہئے ، کیوں کہ وہ ایسا رہبر ہے اور ان کے ایسے پیغامات ہیں جس میں سواۓ بھلائی اور الفت و محبت کے کچھ نہیں ،
حالات ابتر ہوں غلط رخ پر چل پڑے ، ہوائیں تند ہوں ، حاکم وقت کا دباؤ ہو تب بھی ہمارا کام محبت بانٹنا ہے ،
حکمراں اہل سیاست اپنے کام میں محو ہے اقتدار کے نشے میں چور کسی کی جان کی پرواہ نہیں کی جاتی نفرتی بازار عروج پر لاکر بستیاں اجاڑ دی جاتی ہیں ، معاشرہ علی شفا جرف ہار کی دہائی دینے لگتا ہے ، اس ماحول میں بھی ہمارا کام ہے پیغام محبت کو عام کرنا ، یہ کام آسان اس لیے بھی ہے کہ محبت سے کسی کو نفرت نہیں ہوتی ، بس اس کی اشاعت کی ضرورت ہے ، اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے ، زبان میں مٹھاس ہو تو فرعون جیسا ظالم بھی عاشق ہو جاتا ہے ، کہا جاتا ہے ۔۔۔۔ زباں شیری ملک گیری ۔۔۔
دنیا میں عداوتیں ہیں تو ہمارے پاس محبت ہے بس کمی ہے افراد کی محبتیں بانٹنے والوں کی ،۔
آئے عہد کریں نفرت کے بازار کو ٹھوکر پر رکھ کر پیغام محبت کو عام کیا جائے نہ کسی حاکم کی پرواہ ، نہ کسی اہل سیاست کی پرواہ وہ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کریں

ان کا جو کام ہے اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں کو پہنچے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے