’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ یا ’’یکساں شہری قانون‘‘ سے مراد وہ قوانین ہے جو کسی بھی زمین پر آباد لوگوں کی مذہبی اور سماجی زندگی کے لیے بنائے جاتے ہیں،ان قوانین کے تحت نکاح و طلاق، فسخ و ہبہ، وصیت و وراثت اور تبنیت جیسے امور انھیں قوانین کے ذریعہ حل کیے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کو ایمان فروش الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے یہ بتایا جارہا کہ بھارت میں ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی ہدایات کے خلاف نکاح و طلاق جیسے معاملات انجام دینے ہوں گے، وصیت اور وراثت کے معاملہ میں بھی انھیں مذہبی قانون کے بجائے دوسرے قوانین پر عمل کرنا ہوگا، اسی طرح دوسرے مذہب اور رسم و رواج کے پابند لوگوں کو بھی اپنا مذہب چھوڑنا ہوگا، اپنے رواج کو مٹانا ہوگا اور نئے قانون کا پابند ہونا پڑے گا۔Youtubeپر Video ڈال کر،اسلام دشمن Speakers کے ذریعے جزبات کو ابھارنے والی باتوں کو کہلوایا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ذہن میں داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ واضح طورپر ’’مسلم پرسنل لا‘‘ سے مختلف ایک قانون ہے۔جس کے نفاذ کے بعد ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی،مسلمانوں کے قوانین پر کفر کا قبضہ ہو جاۓ گا،حتی کہ قربانی کی بھی اجازت نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
مسلمانوں کا کچھ باتوں کا جاننا ضروری ہے۔مثلا اگر وراثت کے قانون میں تبدیلی ہوئ تو اس سے بھی مسلمانوں کا کوئ نقصان نہیں ہوگا مسلمان اپنی وراثت رجسٹری کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں جوابدہی سے بچ جائیں گے۔نکاح کی عمر کے متعلق شریعت اسلام میں کوئ حدبندی نہیں ہے،آپ ﷺ کی عمر شریف 25 سال اور اماں خدیجہ الکبریٰ کی عمر شریف 40 سال تھی۔(3) تین طلاق کے متعلق قانون بن چکاہے۔
ایسے بھی شاہ بانو کیس میں حکومت ہمارے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کر چکی ہے۔مسلمان جزبات میں ہرگز نہ آ ئیں۔بھارت کے آئین نے جس طریقے سے احتجاج کرنے کی اجازت دی ہے اسی طرح سے احتجاج کریں حکومت ہند کو سمجھائیں کہ یہ قانون ملک کی مفاد کے لۓ نقصان دہ ہے۔اسے ہندو مسلم کا مسئلہ ہرگز نہ بننے دیں۔
یونیفارم سول کوڈ کا ذکربھارت کی آئین آرٹیکل 44 میں پالیسی ہدایتی عناصر کے تحت کہا گیا ہے کہ بھارت کے علاقے میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ یعنی یونیفارم سول کوڈ کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی وہی آئین کا آرٹیکل 37 کہتا ہے کہ ہدایتی اصولوں کا مقصد لوگوں کے لیے سماجی اقتصادی انصاف کو یقینی بنانا اور بھارت کو ایک فلاحی ریاست کے طور پر قائم کرنا ہے۔
ہمارے ملک بھارت میں برادریوں اور روایات کی پیچیدگی اور تنازع کی وجہ سے یونیفارم سول کوڈ کے بجائے ایک ’مشترکہ‘ یعنی ’کامن سول کوڈ‘ کی ضرورت ہے، جو ہر مذہب کے ذاتی قوانین کے بہترین ضابطوں کو شامل کر سکے۔
ہندو قوانین میں 1950 کی دہائی میں ہندو دائیں بازو کی طرف سے کافی مخالفت کے بعد اصلاح کی گئی تھی لیکن ان اصلاحات میں بھی سخت مخالفت کی وجہ سے تمام دفعات کو شامل نہیں کیا جا سکا۔مثال کے طور پر اس قانون میں ہندو مشترکہ خاندان کی جائیداد میں بیٹیوں کا حصہ نہیں تھا، جس میں 2005 میں ترمیم کی گئی۔قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادی شمالی بھارت میں ممنوع ہے لیکن جنوبی بھارت میں اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ہندؤوں کے پسماندہ اور قبائلی سمیت طبقات کے فرد کو ’ملک کے ہر مندر میں پوجا کرنے کی اجازت نہیں ہے،ان کے لۓ الگ سے قانون ہے۔دلتوں اور قبائلی ہندوؤں کے ساتھ صدیوں سے ظلم ہوتا آرہاہے۔ان قوانین میں اب بھی ایسی دفعات ہیں جن پر اکثر سوالات اٹھتے ہیں، مثال کے طور پر ہندو غیر منقسم خاندان یا ’ہندو ان ڈیوائیڈڈ فیملی‘ کا ضابطہ غیر منقسم ہندو خاندانوں کے ارکان کو ٹیکس میں چھوٹ فراہم کرتا ہے۔بھارت میں صرف مسلمان نہیں رہتے ہیں بلکہ بودھ،سکھ،جین،عیسائ یہودی اور آدی واسی رہتے ہیں جن کے مذہبی قوانین سب سے مختلف ہیں اور بھارت کی آئین میں ان کے نذدیک متنازع معاملہ ہے، جب یہ قانون نافذ ہوگا تو ملک میں شدید اختلاف رو نما ہوگا کیوں کہ اس قانون کا مطالبہ کسی بھی مذھبی جماعت نے نہیں کیاہے۔
آخر میں!
سول قانون میں مذہبی قوانین شامل ہیں جس کی آزادی بھارت کی آئین دفعہ 25-28 میں موجود ہے۔ شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔اسی بنیاد پہ مسلم پرسنل لاء کو اہمیت حاصل رہی اور اسی طرح ہندوؤں کیلئے بھی مذہبی آزادی فراہم رہی۔یہ آزادی انگریزوں کے زمانے سے برقرار ہے اور کبھی بھی انگریزوں نے اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔لہذا بھارت کے لوگوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کو کوئ بھیک اور دان نہیں ہے بلکہ انگریزی قانون کا حصہ ہے۔یونیفارم سول کوڈ مسلم مسائل کی آڑ میں ہندو ووٹ سمیٹنے کی سازش ہے۔آنے والے انتخاب میں 2024 میں بھاجپا کی تقریباًہار طۓ ہے۔اس حکومت کے پاس کوئ مدہ نہیں ہے جسے لے کر عوام کی عدالت میں منھ دکھائے۔اسلام دشمن تمام طاقتیں جانتی ہیں کہ مسلمان ایک جذباتی قوم ہے۔یونیفارم سول کوڈ کے نام پر مسلمان احتجاج و مظاہرے کریں گے اور ہندتو کے نام پر بھاجپا ہندو ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرے گی۔میرے بھائیوں آپ سب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ لوک سبھا انتخاب 2024 تک مسلمان زیادہ گرم جوشی نہ دکھائیں۔کورٹ میں معاملہ کو طول دینے کی کوشش کریں تاکہ لوک سبھا انتخاب 2024 گزر جائے۔جمعہ کے خطبے،دینی اور فلاحی جلسے میں محترم علماء اکرام کھل کر عوام الناس کو یہ بات سمجھائیں کہ ابھی وقت حقیقت قبول کرنے کا ہے،جذبات کو کچھ دنوں تک قابو میں رکھیں۔
تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ۔ 9968012976