ریاض فردوسی۔9968012976
امیرالمومنین سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے خلیفہ بنتے ہی حکم دیا کہ کسی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرنے کا حق نہیں ہے۔اس سےقبل ممبروں سے شیر خدا اور خاندان رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی جاتی تھی۔
عبد الله جدلی کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے کہ جو اللہ کے رسولﷺ کو گالیاں دیتا ہو ؟ اس نے کہا: نعوذ باللہ، اس پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا:میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بھی علی کو گالی دے گا تو بے شک اس نے مجھے گالی دی ہے۔(مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 6 ، ص 323۔و خصائص أمير المؤمنين علی کرم اللہ وجہ، النسائي ، ص 99 وتاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص 266۔و تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 3 ، ص 634و البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 7 ، ص 391 والمناقب ، الموفق الخوارزمي ، ص 149 وجواهر المطالب في مناقب الإمام علي (ع) ، ابن الدمشقي ، ج 1 ، ص 66)
حاكم نيشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه .
اس حدیث کی سند صحیح (معتبر) ہے لیکن اسکے باوجود بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا !(المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 121)
اور ہيثمی نے بھی کہا ہے کہ:
رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير أبى عبد الله الجدلي وهو ثقة .احمد ابن حنبل نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسکے راوی، وہی کتاب صحیح بخاری کے راوی، غیر از ابی عبد اللہ جدلی کہ وہ بھی ثقہ و قابل اطمینان ہے۔(مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 130)
بنی امیہ کی حکومت کے 92 سالہ دور میں حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے ڈھائی سال تاریکی میں روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اپنی وفات سے پہلے سلیمان بن عبدالملک نے یہ وصیت کی کہ اس کے بعد اس کا چچازاد بھائی عمر بن عبد العزیز اور اس کے بعد اس کا بھائی یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوگا۔خلیفہ نے اس فرمان کو ایک بند لفافہ میں رکھ کر رجاء بن حیوہ سے کہا کہ باہر جاؤ اور لفافہ دکھاکر لوگوں سے کہو کہ امیر المومنین نے اس لفافہ میں ولی عہد کا نام لکھ دیا ہے۔جس شخص کا نام اس فرمان میں ہے اس کے لیے بیعت کرو۔جب رجاء بن حیوہ نے باہر جاکر لوگوں کو یہ حکم سنایا تو لوگوں نے کہا ہم بیعت اس وقت کریں گے جب ہم کو اس شخص کا نام بتا دیا جائے گا جس کا نام لفافہ میں درج ہے،لیکن بعد میں جب خلیفہ کا یہ حکم سنایا گیا کہ جو شخص انکار کرے اس کی گردن اڑا دی جائے تو یہ حکم سنتے ہی سب نے بیعت کی اور چوں چراں نہ کیا۔
سلیمان بن عبدالملک کے انتقال کے بعد اموی خلافت جو براہ راست عبدالملک بن مروان کے جانشینوں
(ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک) تک جاری تھی اب وہی خلافت عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم کے طرف منتقل ہو گئ۔دراصل جب خلیفہ ولید نے ارادہ کیا کہ اپنے بھائی سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کرکے اپنے بیٹے کو ولی عہد بناۓ تو سب سے پہلے جس شخص نے ولید کی پر زور مخالفت کی وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے۔ اسی لئے سلیمان بن عبدالملک عمر بن عبد العزیز کا بہت شکر گزار اور احسان مند تھا۔چنانچہ اس نے خود خلیفہ ہونے کے بعد ان کو اپنا وزیر اعظم بنایا اور مرتے وقت ان کی خلافت کے لیے وصیت لکھ گیا۔
سلیمان کی وفات کے بعد اس کا سیاسی مشیر رجاء بن حیوہ دابق کی مسجد میں تمام بنو امیہ اور اعیان لشکر کو جمع کیا اور خلیفہ کی وصیت کو سنایا جس میں لکھا تھا کہ میں نے اپنے بعد عمر بن عبد العزیز اور اسکے بعد یزید بن عبدالملک کو خلافت کا ولی عہد مقرر کیا۔پس لوگوں کو چاہیے کہ وہ سنیں اور اطاعت کریں۔اس فرمان کو سن کر ہشام بن عبدالملک عمر بن عبد العزیز کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا لیکن رجاء بن حیوہ نہایت سختی سے فوراََ جواب دیا کہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ ہشام یہ سن کر خاموش ہو گیا اور چونکہ عمر بن عبد العزیز کے بعد یزید بن عبدالملک کو خلافت کا ولی عہد بنا دیا تھا اس لئے اولاد عبدالملک کو اطمینان تھا کہ عمر بن عبد العزیز کے بعد خلافت لوٹ کر پھر ہمارے ہی گھرانے میں آ جائے گی۔جب عمر بن عبد العزیز نے خلافت کے لیے اپنا نام سنا تو وہ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان پر ایک ثقیل بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔بہرکیف سب سے پہلے ہشام بن عبد الملک نے بیعت کی۔پھر اس کے بعد سب لوگوں نے بخوشی بیعت کی اور کسی نے کسی قسم کی چوں چرا نہ کی۔
امیرالمومنین سیدنا عمر بن عبد العزیز بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے۔ان کو خلفائے راشدین کے فہرست میں بالترتیب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،مولی علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کےبعد چھٹے نمبر پر رکھا جاتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحَفص،نام عمربن عبدالعزیزہے، آپ کی والدہ حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی سیّدتنا اُمِّ عاصم بنتِ عاصم تھیں۔(الثقات لابن حبان،ج2،ص354)
آپ کی صورۃ شکیل تھے،رنگ گورا اورچہرہ نازک تھا۔
ان کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے خلافت کے منصب کو خلافت راشدہ کے نمونہ پر قائم کی۔ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ میں شان جمہوریت بالکل غائب ہوگئ تھی۔امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز نے اسلامی جمہوری شان کو دوبارہ واپس لانے کی کوشش کی اور عالم اسلام میں خلفائے راشدین کے سنہرے عظیم اور شاندار دنوں کو بھی واپس لانے کی سعی کی۔
سیدنا عمر بن عبد العزیز کی تربیت مدینہ منورہ میں ہوئ۔مدینہ منورہ میں ہی رہ کر علماء مدینہ سے انہوں نے دین کی تعلیم حاصل کی۔علم و فضل اور فقہ فی الدین میں ان کا وہ مرتبہ تھا کہ اگر وہ خلیفہ نہ ہوتے تو ایمہ شرع میں ان کا شمار ہوتا اور وہ ادب سے بڑے امام مانے جاتے۔جب ولید خلیفہ ہوا تو اس نے ان کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر کیا۔ امارت مدینہ کے زمانے میں تمام فقہاء و علماء ان کے پاس جمع رہتے تھے۔بنو امیہ کے دور خلافت میں جمعہ کے خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر سے طعن و تشنیع کیا جاتا تھا۔خلافت کا عہدہ سنبھالتے ہی خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے سب سے پہلے اس قبیح رسم کو ختم کیا اور حکم جاری کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی شخص بھی نازیب الفاظ ہرگز استعمال نہ کرے۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ خطبہ میں انہوں نے سورہ نحل کی آیت نمبر 90 کو داخل کروایا۔
ترجمہ:اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے دینے کا اور منع کرتا ہے بےحیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے اور تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔اس دن سے لیکر آج تک جمعہ کے خطبہ میں یہ آیت پڑھی جاتی ہے۔
سیدنا عمر بن عبد العزیز ایک امن پسند خلیفہ تھے۔ وہ جنگجو مزاج کے نہیں تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ لوگ اب جہاد فی سبیل اللہ نہیں کرتے بلکہ مال غنیمت کی شوق کے لیے کرتے ہیں۔ان کے عہد خلافت میں زیادہ زمینی فتوحات حاصل نہیں ہوئی۔اس کے برعکس انہوں نے مسلمہ بن عبدالملک کی قیادت میں قسطنطنیہ کے محاصرہ کے لئے جو اسلامی فوج گئ تھی اس فوج کو واپس بلانے کا حکم جاری کیا۔آپ نے آذربائیجان کے علاقہ میں ایک فوجی دستہ بھیجا۔وہاں دشمنوں نے حملہ کرکے مسلمانوں کو لوٹا تھا۔فوج نے دشمنوں کو شکست دی۔علاوہ ازیں پورے مملکت میں کسی طرح کا فتنہ و فساد خلفشار اور بغاوت بھی نہیں ہوا۔
آپ کی سلطنت میں ہر جگہ یکساں سکون اور امن و امان موجود تھا۔ان کے دور خلافت میں سندھ میں اسلام کی خوب اشاعت ہوئ۔انہوں نے تبت اور چین ممالک میں داعی الاالحق کو دین کی تبلیغ کے لیے بھیجا اور وہاں کے حکمرانوں کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔
سیدنا عمر بن عبد العزیز حجاج بن یوسف کے عاملوں کو جو حجاج کے نقش قدم پر چلتے تھے معزول کر دیا۔انہوں نے یزید بن مہلب کو جو خراسان کا گورنر تھا اسے معزول کر دیا۔وہ جرجان کے علاقہ کا جزیہ وصول کر کے بیت المال میں نہیں بھیجتا تھا۔اس کے مقام پر انہوں نے جراح بن عبداللہ حکمی کو گورنر مقرر کیا۔اس کے متعلق یہ شکایت پہونچی کہ وہ موالی کو یعنی آزاد کردہ غلام کو بغیر وظیفہ و رسد جہاد پر بھیج دیتا ہے اور ذمیوں میں سے جو لوگ مسلمان ہو جاتے ہیں ان سے بھی خراج وصول کرتا ہے۔انہوں نے جراح بن عبداللہ کے پاس حکم بھیجا کہ جو شخص نماز پڑھتا ہو اس کا جزیہ معاف کر دو۔سیدنا عمر بن عبد العزیز سے بہلے جو خلفاء ہوۓ ان کے زمانہ میں جو عجمی مسلمان ہو جاتے ان کو اسی طرح جزیہ دینا پڑتا تھا جس طرح وہ پہلے ذمی کی حالت میں دیتے تھے۔انہوں نے اس رسم کو ختم کر دیا۔چونکہ ان کے زمانہ میں دیگر خلفاء کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیے اس لیے ان لوگوں پر سے جزیہ ہٹ جانے کی وجہ سے شاہی خزانہ میں قلت پیدا ہو گئی تاہم ایسے لوگوں کے زمین سے خراج لیکر شاہی خزانہ کی کمی کو پورا کیا گیا۔ جب عاملین نے خلیفہ کو اس بات کی رپورٹ دی کہ ذمیوں کے ایمان قبول کرنے سے جزیہ کی تحصیل میں کمی ہو رہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ خلافت دین اسلام کی اشاعت کے لیے قبول کیے ہیں نہ کہ ٹیکس کی تحصیل کے لیے۔
سیدنا عمرابن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ ایک متقی،پرہیز گار اور خدا ترس خلیفہ تھے،اموی بادشاہ نہیں تھے۔وہ سیدھا سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیش و آرام والی زندگی سے اجتناب کرتے تھے۔وہ پیوند لگا ہوا کپڑا پہن کر جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔ان کے پاس دوسرا کرتا نہیں تھا کہ پرانے کرتا کو اتار کر اسے پہن لیں۔امیر المومنین ہونے کے باوجود اگر انہیں کوئی چیز کھانے کو جی کرتا تو وہ چیز بھی گھر میں میسر نہیں ہوتی تھی۔
ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ کو انگور کھانے کی تمنا ہوئی، آپ بیوی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تمہارے پاس ایک درہم ہے؟ میں انگور کھانا چاہتا ہوں“ بیوی (فاطمہ) نے کہا: ”خلیفة المسلمین ہوکر کیا آپ میں ایک پیسہ خرچ کرنے کی بھی طاقت نہیں ہے“ فرمایا: ”میرے لیے جہنم کی ہتھکڑی سے زیادہ یہ آسان ہے“۔
ایک مرتبہ بہت سے سیب آئے، آپ انہیں عام مسلمانوں میں تقسیم فرما رہے تھے،آپ کا چھوٹا بچہ ایک سیب اٹھا کر کھانے لگا،آپ نے اس کے منہ سے چھن لیا وہ رونے لگا اورجاکر اپنی ماں سے شکایت کی ماں نے بازار سے سیب منگادیئے،عمر بن عبدالعزیز گھرآئے تو انہیں سیب کی خوشبو معلوم ہوئی،پوچھا فاطمہ کوئی سرکاری سیب تو تمہارے پاس نہیں آیا ہے،انہوں نے سارا واقعہ بیان کردیا، آپ نے فرمایا خدا کی قسم میں نے اس کے منہ سے نہیں چھینا تھا، اپنے دل سے چھینا تھا،لیکن مجھے یہ پسند نہ تھا کہ میں مسلمانوں کے حصہ کے ایک سیب کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کے حضورمیں اپنے نفس کو برباد کروں۔
آپ کو لبنان کا شہد بہت مرغوب تھا، ایک مرتبہ آپ نے اس کی خواہش ظاہر کی،آپ کی بیوی فاطمہ نے وہاں کے حاکم ابن معدی کرب کے پاس کہلا بھیجا،انہوں نے بہت سا شہد بھجوادیا،فاطمہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے پیش کیا آپ نے شہد دیکھ کر فرمایا معلوم ہوتا ہے،تم نے ابن معدی کرب کے پاس کہلا بھیجا تھا، ان ہی نے بھیجا ہے؛چنانچہ کل شہد بہجواکر اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی اور ابن معدیکرب کو لکھ بھیجا کہ تم نے فاطمہ کے کہلانے پر شہد بھیجا ہے،خدا کی قسم اگر آیندہ ایسا کیا تو اپنے عہدہ پر نہ رہو گے اورتمہارے چہرہ پر نظر نہ ڈالوں گا۔ایک مرتبہ آپ کی حاملہ بیوی کے لیے تھوڑے سے دودھ کی ضرورت تھی،لونڈی مہمان خانہ سے ایک پیالہ میں دودھ لے آئی، آپ نے پوچھا یہ کیا ہے، اس نے کہا بی بی کے لیے دودھ کی ضرورت تھی،اگر اس وقت دودھ نہ دیا جائے گا تو اسقاط کا اندیشہ ہے،اس لیے یہ دودھ دارالضیافۃ سے لے آئی ہوں، یہ سن کر لونڈی کا ہاتھ پکڑا اورچلاتے ہوئے بیوی کے پاس لائے اورکہا اگر حمل فقراء ومساکین کے کھانے کے علاوہ اورکسی چیز سے قائم نہیں رہ سکتا تو خدا اس کو قائم نہ رکھے،یہ برہمی دیکھ کر بیوی نے دودھ واپس کرادیا۔ایک مرتبہ پنکھا جھلتے جھلتے ایک لونڈی کی آنکھ لگ گئی،آپ نے پنکھا لے کر اس کو جھلنا شروع کردیا،اس کی آنکھ کھلی تو گھبرا کر چلائی، آپ نے فرمایا آخر تم بھی میری طرح انسان ہو،تم کو بھی گرمی لگتی ہوگی،جس طرح تم مجھے پنکھا جھل رہی تھی میں نے تم کوجھلنا مناسب سمجھا۔
ایک مرتبہ رجاء بن حیوٰۃ سے گفتگو میں رات گزرگئی اورچراغ جھلملانے لگا،پاس ہی ملازم سویاہوا تھا،رجاء نے کہا اسے جگادوں، فرمایا سونے دو،رجاء نے خود چراغ درست کرنے کا ارادہ کیا،آپ نے روک دیا کہ مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے اور خود اٹھ کر زیتون کا تیل لیا اورچراغ ٹھیک کرکے پلٹ کر فرمایا جب میں اٹھاتھا تب بھی عمر بن عبدالعزیز تھا اوراب بھی عمر بن عبدالعزیز ہوں۔
خلیفہ بننے کے بعد انہوں نے اپنے محافظ کو معزول کر دیا اور اپنی جسم و جاں کی حفاظت کو اللہ تعالی کے حوالے کر دیا،اس سے محافظت کےمزید خرچ میں کمی آئی۔سیدنا عمر الثانی نے کبھی دولت جمع نہیں کی۔خلیفہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے کہا کہ تم اپنے تمام زیورات اور سونے کی انگوٹھی جو تمہارے والد نے تمہیں تحفے میں دیا ہے سب کو بیت المال میں جمع کرا دیجیے،ورنہ میں تم سے جدائی اختیار کر لوں گا کیونکہ مجھ کو یہ کسی طرح گوارا نہیں کہ تم اور تمہارے زیورات اور میں ایک گھر میں رہوں۔
سیدنا عمر بن عبد العزیز کی شہادت کے بعد جب یزید بن عبد الملک خلیفہ ہوا تو اس نے ان کی بیوی فاطمہ کو انکے زیورات لوٹانا چاہا لیکن فاطمہ نے اسے لینے سے صاف نکار کر دیا۔
سیدنا عمر بن عبد العزیز سے پہلے جتنے بھی خلیفہ(اموی بادشاہ) گزر چکے تھے،وہ سبھی اپنے عزیز و اقارب کو بیت المال سے دولت،ہدیہ،انعامات اور تحائف وغیرہ دیا کرتے تھے۔امیرالمومنین عمرابن عبد العزیز نے بنوامیہ کے اس قبیح رواج کو ختم کر دیا۔اس طرح وہ شاہی خزانوں کا تحفظ کرتے تھے۔ امور انتطامیہ سے متعلق جب وہ کام کرتے تو وہ چراغ روشن کر لیتے اور جیسے ہی کام ختم ہو جاتا وہ چراغ گل کر دیتے اور اپنا ذاتی کام ذاتی چراغ کی روشنی میں کرتے تھے۔انہوں نے عربی اور عجمی مسلمانوں کے مابین مساوات قائم کیا۔اسلامی لشکر میں جتنے عجمی مسلمان سپاہی تھے وہ عربی مسلم سپاہیوں کے برابر تنخواہیں،جاگیریں نہیں پاتے تھے اور انہیں مال غنیمت میں بھی برابر کا حصہ نہیں ملتا تھا۔امیر المومنین عمر بن عبد العزیز نے عربی اور عجمی سپاہیوں کے مابین اس امتیاز کو ختم کیا۔
سیدنا عمر الثانی ایک ایک عادل حکمران تھے۔عدل اور انصاف کے بارے میں وہ بہت ہی حساس تھے۔ وہ ذمیوں(جو غیرمسلم کسی اسلامی مملکت میں رہتے ہوں وہ خواہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب، انہیں “ذمی” کہا جاتا ہے) کے حقوق کے محافظ بھی تھے۔انہوں نے صوبوں کے عمال کو حکم دے رکھا تھا کہ ذمیوں کے ساتھ وہ نرم سلوک کریں اور غریب اور ناتواں لوگوں کے کھانے پینے کا بندوبست کریں۔
ایک دفعہ ایک مسلم نے کسی ذمی کا گھوڑا جبرا چھین لیا اور اس پر بیٹھ کر کام کرنے کے لیے دفتر چلا گیا۔امیرالمومنین عمر ابن عبدالعزیز نے اس شخص کو چالیس کوڑے لگوائے۔ایک دفعہ سیدنا عمر بن عبد العزیز نے ہشام بن عبد الملک اور ایک عیسائی دونوں کو ایک مسئلہ سے متعلق قاضی کے ایک ساتھ کھڑا کروا دیا اور جب ہشام نے اپنی خاندانی رشتے داری کے تکبر میں اس پر مخالفت کی تو عمر الثانی نے ہشام کو خوب ڈانٹا۔ایک مرتبہ ایک مسلمان نے کسی ذمی کا قتل کر دیا۔عمر الثانی نے اس قاتل کو گرفتار کروایا اور مقتول کے وارثوں کو سونپ دیا اور کہا کہ چاہو تو قصاص یا دیت لے لو۔ بالآخر قاتل قصاص میں مارا گیا۔امیرالمومنین عمرابن عبد العزیز عدل و مساوات کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر کوئی مجرم خلیفہ کو گالی دے تو خلیفہ عین عدل کے مطابق مجرم کو سزا نہ دے کر اسے زیادہ سے زیادہ گالی دے سکتا ہے،کوئ جسمانی سزا نہیں دے سکتا۔واضح رہے کہ بنی امیہ کے خلفاء(بادشاہ)خلیفہ کو گالی دینے پر زبان تک کھینچ ڈالنے کاحکم صادر کرتے تھے۔
خلافت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ نے اچھی غذا اور خوراک کے علاوہ میاں بیوی کے تعلقات سے بھی علیحدگی اختیار کرلی، سارا دن سلطنت کی ذمہ داریاں نبھاتے اور رات کے وقت عشاء پڑھ کر تنِ تنہا مسجد میں بیٹھ جاتے اور ساری ساری رات جاگتے، سوتے، گریہ وزاری میں بسر کردیتے، بیوی سے ان کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی، ایک دن انھوں نے تنگ آکر پوچھا، تو ارشاد فرمایا: ”میں نے ذمہ داری کے سوال پر بڑی اچھی طرح غور وخوض کیا ہے اور اس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں اس امت کے چھوٹے بڑے اور سیاہ وسفید کاموں کا ذمہ دار ہوں، مجھے یہ یقین ہوچکاہے کہ میری سلطنت کے اندر جس قدر بھی غریب،مسکین،یتیم،مسافر اور مظلوم موجود ہیں ان سب کی ذمہ داری مجھ پر ہے،خدا تعالیٰ ان سب کے متعلق مجھ سے پوچھے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے،اگر میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب نہ دے سکا تو میرا انجام کیا ہوگا؟جب میں ان سب باتوں کو سوچتا ہوں تو میری طاقت گم ہوجاتی ہے،دل بیٹھ جاتا ہے،آنکھوں میں آنسو بے دریغ بہنے لگتے ہیں۔“
بلاشبہ آپ صدق میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، عدل میں حضرت عمر فاروقؓ، حیا میں حضرت عثمان غنیؓ اور زہد میں حضرت علیؓ کی مثال تھے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کا زمانہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کی طرح بہت ہی مختصر رہا۔وہ سال 717ءستمبر سے لیکر سال 720ء فروری تک دو برس پانچ مہینے حکومت کی۔بنو امیہ نے سیدنا عمر ابن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے خلاف سازشیں کی اور ان کے غلام سے انہیں زہر دیکر شہید کرا دیا۔غلام کو ایک ہزار اشرفی دے کر آپ کو زہر دلوایاگیا، آپ کو اس کا علم ہوا تو غلام کو پاس بلایا، اس سے رشوت کی اشرفیاں لے کر بیت المال میں بھیجوادیا اور فرمایا: ”جاؤ میں تمہیں اللہ کے لیے معاف اور آزاد کرتاہوں“۔ پھر اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور فرمایا: ”اے میرے بچو! دو باتوں میں سے ایک بات تمہارے باپ کے اختیار میں تھی، ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجاؤ اور تمہارا باپ دوزخ میں جائے، دوسری یہ کہ تمہارا باپ جنت میں داخل ہو، میں نے آخری بات پسند کرلی، اب میں تمہیں صرف خدا ہی کے حوالے کرتا ہوں۔عیسائ کو پیسے دے اپنے دفن ہونے کی جگہ خریدی پھر وصیت کیا کہ
جب مجھے دفن کرو تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ”ناخن اور موئے مبارک“ میرے کفن کے اندر رکھ دینا، اسی وقت پیغام ربانی آگیا اور زبان پر سورہ القصص آیت 83 جاری ہوگئی۔
ترجمہ۔یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے جو زمین میں نہ بڑا بننے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی فساد کا ۔ اور انجامِ کار متقیوں ہی کا ہے۔اور روحِ اطہر جسم سے پرواز کرگئی۔ اِنّا للہ وانا الیہ راجعون․
مسجد نبوی تعمیر و توسیع کے علاوہ اپنے عہد گورنری میں اطراف مدینہ میں اوربہت سی مسجدیں بنوائیں ،آنحضرت ﷺ نے اطرافِ مدینہ میں جہاں جہاں نمازیں پڑھی تھیں مسلمانوں نے یاد گار کے طور پر وہاں معمولی مسجدیں بنالی تھیں، عمر بن عبدالعزیز نے اس قسم کی تمام مسجدوں کو منقش پتھروں سے تعمیر کرایا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خلافت کے اہم کارنامے!
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعداس نوجوان یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سوا کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو۔‘‘(سنن ابو داؤد جلد اول حدیث نمبر886)
آپ نے نبیِّ اکرم،رحمتِ دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیثِ مبارکہ مِٹ جانے کے خوف سے ان کوجمع کرنے کا اہتمام فرمایا۔(سنن دارمی،ج1،ص137، حدیث:488)
آپ نے نہ صرف تدوین احادیث نبویہ فرمائی بلکہ اس کی تعلیم و اشاعت کے لئے گورنروں اور عمّال کو تلقین کی کہ ممالک میں علماء بھجوائے جائیں اور مدرس و علماء و طلباءکے لیے وظائف مقرر کئے۔(سیرت عمر بن عبدا لعزیز لابن عبد الحاکم جزء1 ص141، جامع بیان العلم جزء1 ص647، تذکرۃ الحفاظ)
سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے شرابیوں کو سخت سزائیں دیں اورذِمّیوں کو بھی حکم فرمایاکہ وہ ہمارے شہروں میں ہرگز شراب نہ لائیں۔ (طبقات الکبریٰ،ج5،ص283) غیر مسلموں کے مذہبی تَہْوارکے موقع پر مسلمانوں کوتحفےتحائف(Gifts)بھیجنے سے روکا۔
یزید ابن امیرمعاویہ کو امیرُالمومنین کہنے والے کو بھی کوڑے لگوائے۔(سیراعلام النبلاء، ج5،ص84)
آپ نے ایک لنگر خانہ قائم کیا جس میں فُقراو مساکین اورمسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔(تاریخ دمشق،ج45،ص218)اسی طرح مُسافروں کے لئے سرائے خانے اور ان کی سُوارِیوں کے لئے اَصْطَبل تعمیر کروائے، نابیناؤں، فالج زدہ، یتیموں اور معذوروں کی خدمت کے لئے غلام اور اَخراجات عطا فرمائے اور بچوں کے وظائف بھی مُقرّر فرمائے۔ (سیدناعمربن عبدالعزیز کی425 حکایات، ص447تا452)
یحی بن سعید کا بیان ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم پر میں نے افریقہ میں صدقہ وصول کر کے اسے فقراء میں تقسیم کرنا چاہا تو مجھے کوئی فقیر نہ ملا کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے لوگوں کو امیر بنا دیا تھا پھر میں نے صدقہ کی رقم سے غلام خرید کر آزاد کر دئیے۔(سیرت عمر بن عبدا لعزیزلابن عبد الحکم جزء1 ص65)